محمد السعیدی۔الوطن
(دوسری قسط)
کسی بھی ریاست کی شناخت کا فیصلہ کسی ایک بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کسی بھی ریاست کی شناحت کی نفی بھی اس شناخت کے حوالے سے 10یا 20خلاف ورزیوں کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر فرانس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیکولر ریاست ہے۔ لہذا اگر فرانسیسی حکومت سیکولرازم کے حوالے سے 10تا 20خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہی ہو تو اس بنیاد پر یہ کہہ دینا دینا کہ فرانس سیکولر ریاست نہیں رہی، درست نہیں ہوگا۔مثلاًفرانس سیکولر ریاست ہونے کے باوجود گرجا گھروں میں گھنٹیاں بجانے کی اجازت دیئے ہوئے ہے۔ اذان اور مساجد کے مینارے تعمیر کرنے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ حجاب لینے کی ممانعت کئے ہوئے ہے۔ یہودیوں کو مخصوص ٹوپی اور سکھوں کو پگڑی استعمال کرنے کی اجازت دیئے ہوئے ہے۔ فرانسیسی قانون نیپولین کے تیار کردہ اس قانون کا چربہ ہے جو فقہ مالکی سے اخذ کرکے تیار کیا گیا تھا۔
برطانیہ خود کو ڈیموکریٹک ریاست قراردیئے ہوئے ہے۔ وہاں جمہوری نظام کی متعدد خلاف ورزیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مثلاً برطانیہ کا نظام شاہی آئین کا علمبردار ہے۔ لارڈز کونسل کے 50فیصد ارکان نسل درنسل مقررہوتے ہیں۔ برطانیہ کی سرزمین کو ملکہ کی ملکیت مانا جاتا ہے۔ برطانیہ کا فرمانروا گرجا گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور صلیب کو ریاست کے پرچم کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مذکورہ خلاف ورزیوں کے تناظر میں فرانس کو سیکولر ریاست کے خانے سے خارج کرنا کسی طور درست نہیں۔10،20خلاف ورزیوں کی بنیاد پر فرانس کی علانیہ شناخت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے خلاف ورزیوں کا باعث سیکولرازم کی مختلف تشریح ہو۔ ممکن ہے سیاسی ، سماجی اور علاقائی حالات اسکی دین ہوں۔خلاف ورزیاں 2طرح کی ہوتی ہیں بعض بالقصد اور بعض بلا قصد کی جاتی ہیں۔یہی اصول برطانیہ پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور جو اصول شناخت کے حوالے سے فرانس اور برطانیہ پر لاگو کیا جارہا ہے وہی اصول دنیا کے دیگر تمام ممالک پر بھی لاگو کیا جانا چاہئے۔ اس میں ہمارا ملک سعودی عرب بھی شامل ہوگا۔
بعض لوگ سعودی عرب کے حوالے سے اسکی اسلامی شناخت کی تردید میں اسلامی فقہ کی مخصوص خلاف ورزیوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب میں بعض غلطیاں بالقصد ہوسکتی ہیں اور بعض بلا قصد غلطیوں کے زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ اگر مخلص لوگ اور اپنی ریاست کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والے لوگ بالقصد اور بلا قصد غلطیوں کی اصلاح میں دلچسپی رکھتے ہوںگے تو وہ اخلاص اور پیار کے ساتھ ہی اپنا نقطہ نظر پیش کرینگے۔ خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے وقت حکمت اور فراست سے کام لینگے۔ مشفقانہ اسلوب اختیار کرینگے ۔ممکن ہے کچھ غلطیاں بین الاقوامی سیاسی حالات یا مقامی سماجی حالات کی دین ہوں ۔ قانون ساز کی رائے یہ بنی ہوکہ بعض امور سے نمٹنے میں نرمی سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ اصول مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن و سنت سے براہ راست غیر ثابت شدہ مسائل کے احکام اخذ کرتے وقت اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے۔کوئی بھی مجتہد رائے پیش کرتا ہے تو اس کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ہوسکتی ہے۔ یہ گنجائش ریاستی امور چلانے کیلئے کئے جانے والے فیصلوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے اور اصلاح حال کے حسن فہم کا مطالبہ بھی یہی ہے تاہم ہر چیز کو فراموش کردینا اورممکنہ غلطیوں کو یقینی غلطی قراردیکر ریاست کی اسلامی شناخت کی نفی کردینا اور اتنا ہی نہیں بلکہ ریاست کو سیکولر یا لبرل یا مغرب زدہ قراردیدینا کھلا ہوا ظلم ہے انصاف کے سراسر منافی ہے۔
باقی آئندہ