آسیہ کی رہائی ، حکومت ردعمل کےلئے تیار ہے؟
تنویر انجم
سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کیس میں سزا یافتہ آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے بعد سے ملک میں سیاسی اور سماجی سطح پر یہی موضوع سب سے زیادہ زیر بحث ہے۔ حکومتی سطح پر جو بھی بیانات دیئے جا رہے ہیں، اپوزیشن کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں جبکہ سوشل میڈیا پر تو ایک طوفان بپا ہے، جہاں یہ اندازہ لگانا ہی ناممکن ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط۔ ان تمام حالات میں سب سے زیادہ فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا رہے ہیں جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے کوئی ایک افواہ جاری کرتے ہیں اور پھر سب اسی کے پیچھے دوڑنا شروع کردیتے ہیں۔ آسیہ مسیح کی ملتان جیل سے رہائی کے موقع پر بھی یہی سب کچھ دیکھنے کو ملا۔ کسی نے کہا کہ آسیہ کو رہا کرکے بیرون ملک بھیج دیا ہے تو کسی نے کہا کہ اسے خاندان سمیت طیارے میں بٹھا دیا گیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اس طیارے میں ہالینڈ کے سفیر بھی موجود تھے اور کسی نے تو آسیہ مسیح کو خاندان سمیت ہالینڈ پہنچا بھی دیا۔
آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیجے جانے کی افواہ میں سب سے اہم اور بنیادی کردار برطانوی نشریاتی ادارے نے ادا کیا، جسے دنیا بھر میں سب سے باخبر اور جس کی خبر کو انتہائی معتبر جانا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بی بی سی ریڈیو نے ابتدائی طور پر خبر جاری کی تھی کہ آسیہ مسیح کی رہائی کے وقت ہالینڈ کے سفیر بھی جیل میں موجود تھے ۔ ملک سے باہر (ہالینڈ) جاتے وقت بھی آسیہ اور اس کے خاندان کے ہمراہ ہالینڈ کے سفیر طیارے میں موجود تھے اور انہیں بیرون ملک روانہ کردیا گیا ہے۔
آسیہ مسیح کی رہائی کے اگلے روز قومی اسمبلی میں بھی یہی باز گشت سنائی دی اور اپوزیشن کی جانب سے معاملے کی وضاحت کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ جس کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ آسیہ مسیح کو سپریم کورٹ کی جانب سے روبکار ملنے کے بعد ملتان جیل سے رہا کیا گیا اور سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر راولپنڈی یا اسلام آباد منتقل کیا گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے وضاحت کی کہ آسیہ مسیح ملک ہی میں موجود ہے اور اسے کسی دوسرے ملک نہیں بھیجا گیا جبکہ اس سے قبل مذہبی و سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کارکنوں کو ممکنہ احتجاج کے لیے الرٹ رہنے کے اشارے اور حکومت کی جانب سے مبینہ وعدہ خلافی پر مذمتی بیان بھی جاری کردیا گیا تھا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ آسیہ بی بی اب ایک آزاد خاتون ہے، جبکہ اس سے متعلق فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں نظر ثانی پٹیشن دائر کردی گئی ہے، جب اس پر فیصلہ ہو جائے گا تو تب وہ جہاں جانا چاہے جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کوئی بھی آزاد شہری ویزے کے حصول کے بعد کہیں بھی جا سکتا ہے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ وفاقی وزرا نے بھی یہی موقف اپنایا کہ جب تک سپریم کورٹ میں نظر ثانی کا فیصلہ نہیں آ جاتا تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا اور نہ ہی اس وقت تک آسیہ مسیح ملک سے باہر جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے اور ملتان جیل سے رہائی کے درمیان ملک بھر میں ردعمل کے طور پر شدید ہنگامہ آرائی، احتجاج اور مظاہرے ہوئے، جس پر حکومت نے معاہدہ کرکے احتجاج تو ختم کرایا اور اس کے فوراً بعد شرپسند عناصر کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کیا۔ حکومت کی جانب سے اداروں کی مدد سے تصاویر اور وڈیوز کی مدد سے ان افراد کی تلاش میں چھاپے مارے گئے جو احتجاج کے نام پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث رہے یا جنہوں نے نجی یا حکومتی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملتان جیل سے رہائی اور آسیہ کو سیکیورٹی کے نام پر نامعلوم مقام پر منتقل کرنا اور اس دوران افواہ کا پھیلنا کہ اسے بیرون ملک بھیج دیا گیا ہے، دراصل فیصلے کے مخالفین کی آزمائش تھا، جس سے اندازہ ہونا تھا کہ بیرون ملک روانگی کی خبر پر کیسا ممکنہ ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
آخری اطلاعات تک وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے فیصلے کی حمایت میں بیان آنے کے بعد حکومتی موقف بالکل دو ٹوک صورت میں واضح ہو چکا ہے، اور کچھ بعید نہیں کہ ابتدائی ردعمل کے بعد ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں چھائی خاموشی کے دوران حکومت خاموشی ہی کا فائدہ اٹھا کر آسیہ مسیح کو ملک سے باہر بھیج دے کیونکہ اس کا نام ابھی تک ای سی ایل میں بھی نہیں ڈالا گیا اور قانون کی نظر میں تو اسے پہلے ہی بے گناہ اور آزاد قرار دے دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں ظاہر ہونے والے ردعمل کے تناظر میں عدالت عظمیٰ میں تعینات سیکیورٹی اہل کاروں کی اسکروٹنی شروع ہو گئی ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ تمام تفصیلات جمع کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر چیف جسٹس اور دیگر ججز کے ساتھ ڈیوٹی دینے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی اسکروٹنی مکمل کی گئی جس کے بعد سپریم کورٹ میں تعینات تمام اہلکاروں کی اسکروٹنی آئند ہ ہفتے مکمل کرلی جائے گی۔ جاری اعداد شمار کے مطابق عدالت عظمیٰ میں 239 سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ اہلکاروں سے تحریری سوالنامہ اور انٹرویو بھی لیا جارہا ہے، جس میں پولیس اہلکاروں سے دینی رجحانات اور خاندان سے متعلق سوالات بھی پوچھے گئے ہیں۔ سوال نامے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور مسلک کے حوالے سے بھی معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ حاصل شدہ معلومات کو پرکھنے کے لیے ماہرین نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ تفصیلی رپورٹ اور نتائج کے بعد مشتبہ اہل کاروں کی ڈیوٹیاں تبدیل کیے جانے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ میں سیکیورٹی اہل کاروں کی اسکروٹنی کا عمل شروع کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ اس سے پہلے آسیہ مسیح کی حمایت کرنے پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت پر تعینات پولیس اہل کار ممتاز قادری نے قتل کردیا تھا۔ جسے بعدازاں پھانسی دے دی گئی تھی۔
وزیر اعظم کے واضح موقف اور سپریم کورٹ کے ججز کی سیکیورٹی کے لئے اہل کاروں کی اسکروٹنی اور ڈیوٹیوں کا ممکنہ طور پر تبدیل کردیا جانا اشارہ دیتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ابھی تک کے فیصلے کو من و عن تسلیم کر چکی ہے اور کسی بھی قسم کے ممکنہ ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے۔ موجودہ حالات میں پیدا ہونے والے وقفے کے دوران یقینا حکومتی سطح پر اس کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہوں گی، تاہم بہتر یہ ہوگا کہ حکومت کسی بھی معاملے میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے۔ اہم موڑ پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی دباؤہی سب کچھ نہیں، ایمان کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی متنازع فیصلہ یا اقدام ملک میں افراتفری پیدا کر سکتا ہے، جس کا موجودہ حالات میں یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔