صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے
* * *مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر ۔کراچی * *
یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَاسَیِّدََالبَشَرْ
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر
رْوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
رسول کے اِبتدائی حالات:
نسب شریف:
سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔
کنیت:
ابو القاسم۔
وَالدہ کا نام:
آمنہ بنت وہب۔
وِلادت:
بروز پیر12ربیع الاوّل عام الفیل۔
وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے کی اورسیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک6 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہال لے گئیں۔ واپسی میں بمقامِ ابوا اْن کا انتقال ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش اْمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ 35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت:
بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور ِ تعلیم:
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے،اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی دورنبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ ہے لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول نہیں فرماتے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے کندھے پر پتھر اْٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور’’ التاجر الصدوق الامین ‘‘(امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اْسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا۔
’’بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے ہر اْس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘(الاحزاب21)
نبوت:
جب سنِ مبارک 40 کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورۃ اقراء کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے۔اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔
وحیٔ آسمانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
’’بے شک یہ( قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔‘‘(التکویر21-19)۔
اس وحیٔ اِلٰہی کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو اْمت کے لیے ایک بہترین اْسوۂ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔
دعوت و تبلیغ:
اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا۔ ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی۔ بعض نے مانا اور بعض اپنی گمراہی پر قائم رہے۔
ہجرتِ حبشہ:
قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا چنانچہ5 نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا۔ یہ سب سے پہلی ہجرت تھی۔ اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
7 نبوی میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا۔ یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔
10نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آزادی ملی۔ اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غم گسار زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اْنہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اْلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال’’ عام الحزن‘‘ (غم کا سال) کہلاتا ہے۔
11نبوت، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی۔پنج گانہ نماز فرض ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی چنانچہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے6 آدمی مسلمان ہوئے۔
12 نبوت، اس سال اوس و خزرج کے 12افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبۂ اولیٰ کہلاتی ہے۔
13نبوت، اس سال مدینہ کے 70 مردوں اور 20 عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔یہ بیعت عقبۂ ثانیہ کہلاتی ہے۔
ہجرتِ مدینہ:
مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندوۃ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے اورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں 3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُباپہنچے۔
1ھ :اِسلام کا نیا دور:
یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میں 14 دن قیام رہا۔وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔
سرایا و غزوات:
جس جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہؓ کی جماعت کو بھیجا، اسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا کی تعداد47ہے اور غزوات کی تعداد27ہے۔ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 دستے (سریے) روانہ فرمائے لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔