Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کپتان ، یوٹرن اور حقیقی لیڈر

***تنویر انجم***
پاکستانی سیاست کے رنگ بھی عجیب ہیں۔ یہاں کی سیاسی شخصیات کو بھی عجیب و غریب کہا جا سکتا ہے، مگر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان عجائب (سیاست اور سیاستدانوں) کے پیچھے لگے پاکستانی عوام، میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کے دانشور، سب کے سب عجوبہ (سب سے منفرد) بننے کی خواہش میں جُت جاتے ہیں، اور پھر ’’بندر کے ہاتھ میں ناریل‘‘ کے مانند موضوع کے پیچھے ایسے لگتے ہیں جیسے کوئی فہرست اپنے مضمون کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتی۔ویسے تو دنیا میں سات عجوبے مشہور ہیں مگر پاکستانی سیاست ہے کہ یہاں عجائبات کا شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہاں پر تو عجائبات آئے دن تخلیق کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو سکتا ہے۔ آج کا ہمارا موضوع چونکہ سیاست ہے لہٰذا سیاسی عجوبوں کی جانب آتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی سیاست دان کسی بھی دن کوئی بھی عجوبہ تخلیق کرتا ہے، اس کے بعد دنیا بھر پر لازم ہے کہ اس کا ’’حق‘‘ ادا کرے۔ ماضی میں خلائی مخلوق، محکمہ زراعت، فسادی، مجھے کیوں نکالا، میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں، پاکستان کھپے، تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے، سونامی، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ اصلی ہو یا جعلی، اس طرح کے سیکڑوں عجوبے تخلیق کیے جاتے رہے ہیں، تاہم اس مرتبہ ہمارے وزیر اعظم کے تخلیق کردہ عجوبے نے کمال کردیا۔ اس نے ایک ہی دن میں دنیا بھر میں ایسی شہرت پائی کہ ہر ٹی وی چینل، ہر اخبار، سماجی رابطے کی ہر ویب سائٹ اور اس کا شاید ہی کوئی صارف ایسا ہو جس نے اس عجوبے سے ’’فائدہ‘‘ نہ اٹھایا ہو۔ بس جناب! وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایک فوج ظفر فوج سوشل میڈیا پر نکل آئی، کسی نے یو ٹرن کے اخلاقی جواز فراہم کیے تو کسی نے تاریخ کے اوراق اُلٹ پلٹ کر حوالے دکھانے شروع کردیئے، کسی نے اسے سیاسی ضرورت کا نام دیا اور کسی کے مطابق ’’یو ٹرن‘‘ کوئی منفی لفظ ہی نہیں بلکہ اسے ’’حکمت عملی‘‘ قرار دے ڈالا۔ اور تو اور کسی نے صحابہ کرامؓ کے واقعے کو بطور مثال پیش کردیا اور کوئی ’’یو ٹرن‘‘ کو دین سے جوڑنے بیٹھ گیا اور اس کے فضائل بیان کرنے لگا۔ سوشل میڈیا پر گویا کہ ایک مچھلی بازار کی کیفیت تھی کہ ہر جانب سے ایک آواز آ رہی تھی، ہر کوئی ایک دوسرے سے غیر مطمئن تھا۔ اِسی دوران حزب اختلاف کے سیاست دانوں کو بھی بہترین موقع ملا اور انہوں نے اس پر تنقید شروع کردی۔ جواب میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں نے بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا اور وزیرا عظم کی ’’بے پر کی اُڑائی‘‘ کو مصنوعی ’’پَر‘‘ لگا کر پرواز جاری رکھنے کی کوشش کی۔  ایسے میں جب عمران خان پر ’’یو ٹرن‘‘ کی وجہ سے تنقید کے نشتر برسائے جا رہے تھے۔ اینکر پرسن منصور علی خان نے بھی ’’ہاتھ صاف‘‘ کیے جب انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے ساتھ اُن کا ایک پیغام شیئر کیا جس میں لکھا تھا کہ ’’کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل 100 مرتبہ سوچ لیں، مگر جب فیصلہ لے لیں، تو پھر اس پر ثابت قدم رہیں۔‘‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت ابلاغ کے ہر ذریعے پر ’’یو ٹرن‘‘ نامی ایک سمندر تھا جو اُمڈ آیا تھا، جس کے ایک کنارے پر حزب اختلاف اور تحریک انصاف کے ناقدین تھے جبکہ دوسری جانب حکومت اور ان کے حلیف اپنے کپتان کی ’’نو بال‘‘ پر لگا چھکا روکنے کے لیے ’’دفاعی‘‘ پوزیشن پر تھے۔ کراچی میں ’’گلابی انگریزی‘‘ بولنے والے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک ’’زریں قول‘‘ سے قوم کو نواز دیا کہ ’’جب تک کوئی لیڈر یوٹرن نہیں لیتا، تب تک وہ بڑے فیصلے نہیں کرسکتا۔‘‘ ابھی یہ باز گشت جاری ہی تھی کہ ٹویٹر پر ایک جانی پہچانی شخصیت نے کپتان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یوٹرن واپس پلٹنے کو کہتے ہیں۔ ہمارے دین میں واپس پلٹنے والا رجوع کرنے والا ہے۔ واپس پلٹنا اچھا ہوتا ہے ، بات پر جمے رہنا مناسب نہیں ہوتا۔ عمران خان نے یوٹرن سے مراد رجوع کو لیا ہے اور صحیح مطلب اخذ کیا ہے ۔ ہر بڑا لیڈر اور انسان یوٹرن لیتا تھا اور لیتا رہے گا۔ ‘‘ ایسی ’’بہترین‘‘ توجیہ پیش کرنے پر سوشل میڈیا کے صارفین نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کے بعد والا سلوک قارئین ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سینئر تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں میزبان کی تنقید کے جواب میں عمران خان کے ’’یو ٹرن‘‘ کو قابل قبول، جائز اور درست قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت سے متعلق کوئی متنازع بات ہو اور اس میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری (جو بظاہر ہر وقت ’’چور، ڈاکو‘‘ جیسے الفاظ سے مسلح رہتے ہیں) حصہ نہ ڈالیں، یہ ممکن نہیں۔ موصوف نے گزشتہ دنوں سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ بلوچستان کو وفاق سے 10 سال میں ملنے والی رقم 42 ٹریلین یعنی 420 کھرب روپے ہے، جس کے بعد ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے ’’انتہائی کشادہ دلی‘‘ سے کام لیتے ہوئے ’’یو ٹرن‘‘ کا بہترین مظاہرہ کیا اور 420 کھرب روپے میں سے ’’صِرف‘‘ 405 کھرب روپے کم کرتے ہوئے وضاحت کی کہ بلوچستان کو وفاق سے 10 برس میں 15 کھرب روپے دیے گئے۔ جبکہ اس سے پہلے فواد چوہدری ہیلی کاپٹر کی فی کلومیٹر پرواز کے 55 روپے بتا کر دنیا بھر کو حیران کر چکے ہیں۔
’’یو ٹرن‘‘ کو وقت کی اولین ضرورت اور ملکی مسائل کا ’’بہترین حل‘‘ ثابت کرنے میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست اور مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری بھی بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ’’ایک لیڈر ہی ’’یو ٹرن‘‘ کی بات کر سکتا ہے۔ انہوں نے قوم کو باخبر کرتے ہوئے اطلاع دی کہ جو شخص (یو ٹرن نہ لے اور) اپنی بات پر اَڑا رہے، اسے تو ’’ضدی‘‘ کہتے ہیں۔ 
’’یو ٹرن‘‘ فارمولے کے تحت چلنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کو ہیں، اس دوران بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے انتخابی وعدوں کے برعکس وزیر اعظم کے ’’یو ٹرن‘‘ پالیسی اپنانے کے نتیجے میں عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے، تاہم عوام کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ یہ فیصلے (یو ٹرن لینا) حقیقی لیڈر کے دور اندیش ہونے کی علامت ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان جب فیصلے کا اعلان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کا آخری فیصلہ ہوگا لیکن جلدی میں کیے جانے والے ان فیصلوں کو وہ جلد ہی واپس بھی لے لیتے ہیں، جس سے ان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ عمران خان کے ’’یو ٹرنز‘‘ کی ایک لمبی فہرست ہے۔ عموماً سیاست دان اپنے اعلانات اور فیصلوں میں واپسی کا راستہ یا گنجایش رکھتے ہیں لیکن عمران خان خود کو بند گلی میں کھڑا کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں اور بالآخر انہیں ’’یو ٹرن‘‘ کے سوا کوئی دوسرا راستہ دکھائی دیتا ہے نہ سُجھائی۔شنید ہے کہ آپ کے وزرا بھی اس ’’یو ٹرن‘‘ پالیسی سے نالاں ہیں اور خدشات کا شکار ہیں کہ کہیں یہ ’’پلٹنے‘‘ والی پالیسی ان کی کرسی ہی نہ ’’پلٹ‘‘ دے، کیونکہ ان کے ’’لیڈر‘‘ کا فرمان ہے کہ حقیقی رہنما تو وہی ہے جو ’’یو ٹرن‘‘ لے، یعنی وقت کی مناسبت سے اپنی ہی باتوں کا انکار کر بیٹھے۔
 

شیئر: