قرآن و حدیث کے ذریعے گناہ سے بچنے کا پورا پلان پیش کیا گیاہے، Do's اور Dont'sکی مکمل فہرست ہے
* * عبیدالرحمن الحسینی۔ الجوف * *
کئی بار ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ شریعت میں صرف زنا کی سزا ہی اتنی سخت کیوں رکھی گئی۔جب قرآن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ جہاں صرف اللہ کے حق کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ نرمی کا رویہ اپناتے ہیں اور جہاں بندے کا حق اللہ کے حق سے مل جائے تو اللہ پاک سختی اختیار کرتے ہیں۔ 2 افراد کے زنا کے متاثرین2 فرد، 2خاندان، 2 قومیں، 2گروہ یا 2قبیلے نہیں بلکہ پوری امت ہے۔ قتل کے گناہ کی سزا بھی قتل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اسے نے پوری انسانیت کو قتل کیا…مگر یہاں آپس میں صلح صفائی کی بنیاد پر دیت کی رعایت بھی دیدی۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، قتل کی سزا قتل ہے مگر زنا کی سزا یوں بھی اپنی شدت میں بڑھ کر ہے کہ یہ چھپ کر نہیں بلکہ سرِعام مجمع میں دینی ہے اور ہر پتھر جسم پر ایک زخم بنائے گا جب تک جان نہ نکل جائے۔
اس میں حکمت یہ ہے کہ جیسے اس گناہ کے عمل میں اس کے جسم کے ہر ٹشو( tissue) نے لطف اٹھایا تو اب موت بھی لمحہ لمحہ اور پل پل کی اذیت کے بعد آئیگی، یعنی زانی جب تک اپنے خون میں غسل نہ کرے اُس کی توبہ قبول نہ ہوگی مگر کیا اللہ پاک اتنے بے انصاف ہیں کہ ایک گناہ کی اتنی بڑی سزا رکھ دی؟ مگر اس سے بچنے کی کوئی ترکیب یا طریقہ نہ سکھایا؟ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اپنے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واسطے سے قرآن و حدیث کے ذریعے اس گناہ سے بچنے کے لیے پورا پلان پیش کیا ہے۔ احکامات کی پوری لسٹ ہے۔ Do's اور Dont'sکی مکمل فہرست ہے۔ آئیں ان سب کا جائزہ لیں۔
٭ پہلا حکم استیذان یعنی اجازت طلب کرنا:
کسی کے گھر یا کمرے میں بلا اجازت مت جاؤ۔ بھائی بہن کے، باپ بیٹی کے، ماں بیٹے کے کمرے میں جانے سے پہلے اجازت طلب کریں۔ شریعت اس طرح ہمیں مزاج سکھا رہی ہے اور آج اس حکم پر عمل نہ کرنے سے محرم رشتوں میں بھی خرابی آ رہی ہے۔ گھر میں 2حصے رکھیں۔ پرائیویٹ رومز یعنی ذاتی کامن رومز یعنی عام پرائیویٹ کمروں میں محرم اجازت سے اور اجنبی بالکل مت جائیں تاکہ ایک دوسرے کو نامناسب حالت میں نہ دیکھ لیں۔Segregated rooms(الگ الگ کمرے) یعنی ڈرائنگ روم وغیرہ میں مرد ہی مردوں کو attend کریں۔ عورتیں بالکل مت کریں چاہے کزنز ہوں یا سسرالی رشتہ دارمگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزنز کھلم کھلا فیمیل کزنز کے کمروں میں جاتے ہیں، چھیڑ خانی ہو رہی ہوتی ہے، ہنسی مذاق اور آؤٹنگ چل رہی ہوتی ہے اور اسی دوران شیطان اپنا وار کر دیتا ہے۔ عورتیں یاد رکھیں کہ مرد زبردست اور عورت زیردست ہوتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی عورت پاک رہنا چاہے مگر مرد اس کو پاک نہ رہنے دے؟
٭ دوسرا حکم نظر کی حفاظت۔ نظروں کو نیچا رکھیں اور اپنی حیا کی حفاظت کریں:
یہ حکم مرد عورت دونوں کیلئے ہے۔ عورتوں کی شادی بیاہ اور مردوں کی بازاروں میں اکثر نظر بہکتی ہے۔ کوئی مہمان آئے تو عورتیں جھانکتی تاکتی ہیں۔ باپ، بھائیوں کے دوستوں سے ہنس ہنس کر ملنا اور serving ہو رہی ہوتی ہے جبکہ شریعت تو دیکھنے سے بھی منع کر رہی ہے۔ مردوں، عورتوں کی یہ عادت شادی بیاہ میں کھل کر سامنے آتی ہے جب بے حیائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ 2 اندھے اگر آمنے سامنے بیٹھے ہیں تو انکو نہیں معلوم کہ سامنے والا کیسا، کتنی عمر کا ہے مگر شریعت ایک بینا اور اندھے کو بھی آمنے سامنے بیٹھنے سے منع کرتی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ثابت ہے۔ عورتوں اور مردوں کو کئی بار مجبوری میں بات بھی کرنی پڑتی ہے جیسے بازار وغیرہ۔ تب شریعت چہرے پر نظر ڈالنے سے منع کرتی ہے۔ صرف پردہ کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ نظر بھی جھکانی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نظر سوچ کے اندر تصویر لے جاتی ہے، یہ تصویر خواہش میں بدل جاتی ہے اور پھر یہی خواہش بے حیائی کا راستہ دکھاتی ہے۔ ‘‘
٭ تیسرا حکم زینت کو چھپانا:
پردہ اور چیز ہے اور زینت اورچیز۔عورت کے اعضائے زینت نماز میں چھپانے والے اعضاء ہیں۔ کوشش کریں کہ اس فتنہ کے دور میں محارم سے بھی زینت والے اعضاء چھپائے جائیں۔ اپنے سینے اور گریبان کو خصوصاً ڈھانپیں۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ4 کپڑوں میں عورت کو ڈھانک کر قبر میں بھیجنے کو کہتا ہے۔ ہم عورتوں نے زندگی میں2 کپڑوں کا لباس معمول بنا لیا ہے کہ اب تو بوتیکس بھی دوپٹے آرڈر پہ تیار کرتی ہیںکیونکہ عورتیں 3 کپڑے بھی پہننے پر راضی نہیں۔ مسلمان عورت کا غیر مسلم عورت سے بھی نماز والا پردہ ہے۔یعنی سوائے چہرے، دونوں ہاتھ اور پاؤں کے باقی جسم چھپانا ہے مگر یہاں تو ویکس بھی کروائی جاتی ہے اور فیشلز بھی۔ مرد حضرات پبلک یا گھر میں شارٹس نہیں پہن سکتے۔ آپ حیا دار ہوں گے تو گھر کی عورتیں بھی اپنی حیا کو متقدم رکھیں گی ورنہ سب سے پہلے بگاڑ گھروں کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ ماؤں اور بہنوں کے نامناسب لباس گھر کے لڑکوں میں حیا کی کمی کی وجہ بنتے ہیں۔ یاد رکھیں ’’جب عورت نے اپنے ستر کا خیال نہ رکھا تو محرم محرم کا دشمن بن گیا۔ جب اللہ کی مقرر کردہ حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو باپ بیٹیوں کو خود پہ حلال کر لیں گے ‘‘۔خدارا اپنے گھروں سے فسق کا ماحول ختم کریں۔
٭ چوتھا حکم بیوہ اور مطلقہ کا نکاح:
ان کے نکاح کا مقصد معاشرے کو پاک رکھنا ہے کیونکہ بیوہ یا مطلقہ ازدواجی زندگی کے دور سے گزر چکی ہوتی ہے اور ان کے نکاح میں تاخیر یا انکار معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ حکم اُس مرد کے لیے بھی ہے جس کی بیوی مر جائے یا وہ طلاق دیدے۔ یاد رکھیں، شادی پر اصرار وہی مرد کرتا ہے جو پاک رہ کر صرف بیوی سے سکون حاصل کرنا چاہے ورنہ معاشرہ بھرا ہوا ہے ایسے غلیظ لوگوں سے جو شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں اس بوجھ کو گلے میں ڈالے بنا بھی سب کچھ مل رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ ایک سے خواہش پوری نہیں ہوتی تو 2شادیاں کرلو۔ 3 کرلو، 4 کرلو اور اس میں بیوی کی اجازت بھی شرط نہیں ،ہاں بیوی کے حقوق پورے کرنا فرض ہے مگر کیا کیا جائے اس اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے کا کہ جو گرل فرینڈز تو10,10 برداشت کر لیتا ہے مگر بیوی ایک سے 2 نہیں۔ اسی طرح بیوہ یا مطلقہ کی شادی پر ایسے ایسے بے شرم تبصرے اور اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
٭ نکاح میں بہت تاخیر نہ کی جائے:
ہم گھروں میں کیبل لگوا کر، کھلی آزادی دے کر، کو ایجوکیشن میں پڑھا کر پھر اپنے بچوں سے رابعہ بصری اور جنید بغدادی بننے کی توقع کریں توہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ 2جوان لڑکا لڑکی جب یونیورسٹی کے آزاد اور ‘‘روشن خیال’’ ماحول میں پڑھیں گے تو انکو تعلق بنانے سے کون روکے گا؟ جب گھروں میں دینی تربیت نہ ہو، مائیں اسٹار پلس کے ڈراموں اور کپڑوں کی ڈیزائننگ میں مگن رہتی ہوں، اولاد کی سرگرمیوں اور ان کی صحبت سے ناواقف ہوں تو جیسی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں وہ بعید نہیں۔
مگر ہمیں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پردے کی ضرورت نہیں۔ اس کا تو یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ جب نظروں میں حیا ہو تو پھر کپڑوں کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب کی امت پر خاص احسان ہے کہ اس نے ہم میں پچھلی قوموں کے تمام گناہ دیکھ کر بھی ہمیں غرق نہیں کیا، ورنہ بنی اسرائیل کے لوگ تو بندر بھی بنائے گئے اور خنزیر بھی۔ توبہ کے دروازے بند نہیں اور نہ ہی رب کی رحمت مدھم ہو گئی ہے۔ جب اللہ کی محبت اور ایمان کی روشنی دل میں آجاتی ہے تو یہ ‘‘نورٌ علیٰ نور’’ ہے۔ اب ایسے دل میں بے حیائی داخل نہیں ہو سکتی۔ ایمان کا نور لینا ہے تو ان گھروں میں جا کر بیٹھ جاؤ جہاں صبح شام اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و پاکی بیان ہوتی ہے، یعنی مسجدیں۔ توبہ سے شاید دن گزرنے کا انداز بدل جائے، راتوں کی بے چینی سجدوں کے سرور میں بدل جائے اور جب یہ میڈیا اور معاشرہ تمہاری توبہ کو کھانے لگے تب فیصلہ ہوگا کہ تم اس رب العزت کے غلام ہو یا اپنے نفس کے۔