Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک بڑے آدمی کا تذکرہ

***وسعت اللہ خان ***
8 اکتوبر 2005کو شمالی پاکستان اور کشمیر میں جو تباہ کن زلزلہ آیا اس کے بعد دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں آنا شروع ہو گئیں۔ان میں سب سے بڑی میڈیکل ٹیم کیوبا کی تھی ۔3 سو ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے پر مشتمل ٹیم۔ان ڈاکٹروں کو افریقہ میں جنگ و قحط سے آلودہ علاقوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔عجیب ٹیم تھی ۔دو حصوں میں بٹ کر 24 گھنٹے کام کرتی تھی۔جنریٹرز کی روشنی میں زخمیوں کے آپریشن دن رات جاری رہتے۔شاید سب سے زیادہ آپریشن اسی ٹیم نے کئے ۔پھر ایک دن خاموشی سے پورا کیمپ اور سب آلات پاک فوج کو عطیہ کرکے یہ ٹیم روانہ ہوگئی۔
اس کے بعد حکومتِ کیوبا نے اعلان کیا کہ زلزلہ زدگان کے متاثر بچوں میں سے جو بھی کیوبا میں میڈیسن اور سائنس پڑھنا چاہے ہم حاضر ہیں۔یہ پیش کش مذاق میں نہیں کی گئی تھی۔کئی بچے حکومتِ کیوبا  کے خرچے پر وہاں پڑھنے گئے۔
تیسری دنیا کا ایک ایسا چھوٹا سا جزیرائی ملک جو نصف صدی سے زائد عرصے سے سب سے بڑی سپر پاور سے پنجہ آزما رہا۔پھر بھی  99.4 فیصد آبادی کو ہر طرح کی بیماریوں کے خلاف مفت طبی سہولت میسر کرنے میں کامیاب رہا ۔یہ سہولت تو خود  امریکہ کے شہریوں کو بھی میسر نہیں رہی۔
کیوبا  براعظم جنوبی امریکہ کا سب سے صحت مند اور تعلیم یافتہ ملک ہے ۔باوجودیکہ ایک بھی بین الاقوامی دوا ساز کمپنی وہاں قدم نہیں جما سکی ۔سب دوائیں مقامی طور پر بنتی ہیں یا اچھے دنوں میں سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک سے آتی تھیں۔ ٹراپیکل میڈیسنز پر سب سے زیادہ ریسرچ کیوبا میں ہی ہوتی ہے۔جن ہسپانوی نژاد اور سیاہ فام امریکیوں  کے پاس اپنے ملک میں مہنگی سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے وسائل نہیں انہیں کیوبا اپنے ہاں مفت تعلیم مکمل کرنے کے لئے مدعو کرتا رہتا ہے۔
مگر یہ چمتکار صرف 69 برس پرانا ہے۔ 1959ء سے پہلے کیوبا امریکہ کی تفریحی چراگاہ تھا۔بس ایک فصل پیدا ہوتی تھی یعنی گنا۔اس سے بننے والی ساری شکر امریکی تجارتی کمپنیوں کے کنٹرول میں تھی۔ہوانا سے باہر بسنے والی 80 فیصد مقامی آبادی خطِ غربت سے نیچے تھی۔
یکم جنوری 1959ء کو جب 33 سالہ کاسترو اور اس کا مسلح دستہ چھینے ہوئے ٹینکوں اور ٹرکوں میں سوار ہوانا میں داخل ہوا تو امریکی زرائع ابلاغ کے مطابق ایک ملین لوگ سڑک پر تھے۔
ہوانا میں داخلے کے 4 ماہ بعد کاسترو نے تمام نجی املاک و غیرملکی اثاثے قومی ملکیت میں لے لئے۔امریکہ نے کیوبا کی چینی خریدنے سے انکار کردیا اور تیل بھی روک لیا۔سوویت یونین نے آگے بڑھ کے کیوبا کا ہاتھ تھام لیا۔چینی اٹھا لی ، تیل فراہم کرنا شروع کیا اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے بھاری امداد کا اعلان کیا جو بڑھتے بڑھتے ایک مرحلے پر 5 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی۔
کیوبا نے جنوبی امریکہ اور افریقہ میں سامراج مخالف تحریکوں کی کھلم کھلا مدد کا اعلان کیا اور اپنی فوج ، ڈاکٹر ، انجینیر ، فنکار ، معلّم سب کچھ حاضر کر دیا۔فرانس کے خلاف الجزائر کی تحریکِ آزادی سے نیلسن منڈیلا کی افریقن نیشنل کانگریس تک سب کو امداد دی۔بعد ازاں انگولا  اور موزمبیق کو پرتگال سے آزادی حاصل کرنے کے لئے اور نمیبیا کے حریت پسندوں کی جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت کے خلاف پشتیبانی کی ۔
فیدل کاسترو نے کیوبا پر دھڑلے سے39 برس حکومت کی۔اس عرصے میں ایک کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں سے ایک ملین شہریوں نے امریکہ  کی جانب ہجرت کی۔1964ء سے امریکہ نے کیوبا کا مکمل معاشی بائیکاٹ کردیا اور ان بین الاقوامی کمپنیوں سے بھی تجارت کرنے سے انکار کر دیا جو کیوبا میں سرمایہ کاری پر بضد تھیں۔
کاسترو کے قتل کی 638 چھوٹی بڑی کوششیں ہوئیں۔
کسی نے فیدل سے پوچھا آپ بلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنتے۔فیدل نے کہا  میں نے اخلاقی جیکٹ جو پہن رکھی ہے ۔
2006ء میں فیدل نے علالت کے سبب خود کو ملکی معاملات سے علیحدہ کرنا شروع کردیا اور 2008ء میں برادرِ خورد رال نے پورے اختیارات سنبھال لئے۔
نیلسن منڈیلا کے جنازے پر باراک اوباما اور رال کاسترو نے رسمی طور پر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی ۔بالاخر دسمبر 2015ء  میں واشنگٹن اور ہوانا سے بیک وقت سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان ہوا۔اگلے برس اپریل میں اوباما نے ہوانا کا سرکاری دورہ کیا۔ 88  برس میں کسی بھی امریکی صدر کا یہ پہلا دورہ تھا۔
فیدل کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ایک چھوٹے سے جزیرے کو پوری دنیا میں ایک انقلابی برانڈ بنا دیا۔25 نومبر 2016ء کو 90 برس کی عمر میں جب انتقال ہوا تو جلا وطن کیوبائیوں کے علاوہ ان کا شاید ہی کوئی دشمن رہا ہو۔
 نیلسن منڈیلا کے جانے کے بعد فیدل بیسویں صدی کی آخری قد آور شخصیت تھے۔وفات سے 7 ماہ قبل انہوں نے کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی ساتویں کانگریس سے آخری خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ90 برس کا ہو جائوں گا۔کچھ دن بعد میں بھی وہیں چلا جاں گا جہاں ہر ا نسان بالاخر چلا جاتا ہے مگر کیوبا  کی انقلابی روح  پھر بھی برقرار رہے گی ۔‘‘
3 روز قبل فیدل کی دوسری برسی تھی۔سوچا یاد دلا دوں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں