ہندوستان میں جب انگریز داخل ہوئے تو یہاں محلاتی سازشوں، جا بجا مذہبی نسلی و علاقائی بغاوتوں اور ان کے نتیجے میں ہندوستان جیسے وسیع و عریض جغرافیے پر گرفت ڈھیلی پڑنے کے سبب مغل سلطنت کے استبدادی طرزِ بادشاہت کا شیرازہ برف کی طرح تیزی سے پگھلتا جا رہا تھالہٰذا ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کو ملک پر قبضے کے لئے بہت زیادہ دماغ لڑانے کے بجائے بس لڑائو اور قبضہ کرو پر ہی دھیان دینا پڑا۔جب 1858ء تک فزیکل قبضہ رجواڑوں کو زیر کرنے کے عمل کے ساتھ مکمل ہوگیا تو پھر انہوں نے ہندوستانی سماج کو جدید اور مہذب بنانے کے لئے اسٹرکچرل تبدیلیاں لانے کی ٹھانی۔فارسی اور سنسکرت کو انگریزی نے معزول کردیا۔مدرسہ اسکول تلے آ گیا۔پنچ ہزاری و دس ہزاری لشکروں کی روایت سیاسی سوسائٹیوں اور پھر سیاسی جماعتوں سے بدلنے لگی۔بادشاہت کی بند عمارت کی چھت پر گورا شاہی کی چوکی اور اس کے اردگرد برائون جی حضور نوکر شاہی کا پہرہ قائم ہوا۔ نچلی دو منزلوں کے کمرے سابق امرا ، جاگیرداروں ، روحانی پیشوائواور کاروباری طبقات کو الاٹ کئے گئے اور بیسمنٹ میں عوام ٹھونس دئیے گئے ۔
اس بند عمارت کے مکینوں کا دم نہ گھٹے اس واسطے اختلافِ رائے کے محدود روشندان اور نیم خود مختاری کی کھڑکیاں نصب کی گئیں اور پھر عمارت کی پیشانی پر جمہوریت منزل لکھ دیا گیا۔
یوں 1947ء میں آزادی نصیب ہوئی ۔عمارت کے جس حصے کی چابیاں آزاد ہند کو ملیں اس میں اسٹرکچرل تبدیلیاں تو نہیں ہوئیں البتہ کچھ نئے کمرے بن گئے اور پہلے سے بنے کمروں میں نئی ضروریات کے حساب سے فرنیچر ادھر سے ادھر کردیا گیا یا بدل دیا گیا۔عمارت کے جن کمروں کی چابیاں آزاد پاکستان کو ملیں ان میں کبھی سفیدی تو کبھی خاکی رنگ کیا جاتا رہامگر کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی حتیٰ کہ شروع کے 10 برس تک ہم نے فرنیچر کی سیٹنگ کو بھی ہاتھ نہ لگایا ۔رفتہ رفتہ نوآبادیاتی گوری عظمتِ رفتہ کی مرعوبیت اہلِ فیصلہ کے دماغوں پر سے کم ہونی شروع ہوئی اور ہم نے زرا زرا باہر نکل کے چہل قدمی شروع کی۔ایک دن بہت شاندار امریکن سرکس سامنے کے میدان میں لگا۔اس قدر روشنی کہ ہماری تو آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔سرکس کے میلے میں سجی ایک دکان میں ایک قدِ آدم کھلونا کھڑا تھا۔اس کے ہاتھ اور گردن مشین کی طرح حرکت کرتے تھے۔اس پر ٹیگ لگا ہوا تھا ۔امریکی صدارتی نظام ۔ہمیں یہ پسند آیا مگر قیمت سن کر توتے اڑ گئے مگر وہ اتنا پسند آیا کہ ہم اسے بھاری شرح سود پر قسطوں میں خرید لائے۔یہ جانے بغیر کہ کیوں خرید لائے۔شوق اور جوش میں اس کھلونے کے مکینکس کے بارے میں پوری جانکاری لینا بھی بھول گئے۔کئی دن الٹ پلٹ کر تاک جھانک کر دیکھا کہ یہ کیا بلا ہے۔اس چکر میں کھلونے کے بازو ٹوٹ گئے مگر اس خیال سے کہ ہمیں کوئی احمق نہ سمجھے اس پر گھبرا کے بنیادی جمہوریت کا پلو ڈال دیا۔
چند برس بعد ایک کمرہ جسے ہم فالتو چیزوں کے اسٹور کے طور پر استعمال کر رہے تھے اس کی دیواروں میں کریکس پڑنے شروع ہوگئے مگر ہم نے انہیں معمول کی شکست و ریخت جانا اور پھر ایک دن اسٹور کی چھت گرگئی ۔ہم نے مرمت کے بارے میں سوچنے کے بجائے اس کا دروازہ نکال کر اینٹوں سے یوں چنائی کردی جیسے یہ کبھی مکان کا حصہ ہی نہیں تھا۔اب رہ گئے چار زیرِ استعمال کمرے۔اس دوران مکینوں کی شادیاں بھی ہوئیں اور بچے بڑھنے کے سبب جگہ اور تنگ پڑتی گئی لہٰذا ہم نے جگہ گھیرنے والے ناکارہ پڑے امریکی صدارتی نظام کے کھلونے کو کسی گزرتے کباڑی کے ہاتھ اونے پونے بیچ دیا اور ان پیسوں سے انگریز دور کے پرانے فرنیچر کی مرمت کرکے اسی پر آئینی وارنش کر کے تازہ کر لیا ۔پھر ایک روز گھر کے سامنے سے ایک ساربان سامنے سے گزرا۔اسے پیاس لگی ہوئی تھی۔ہم اسے بڑے عزت و احترام سے اندر لائے۔الائچی والا قہوہ بنوایا اور ایک تھالی میں پانی بھر کے اس کے اونٹ کے سامنے رکھا۔ ساربان نے جب ہمارے گھر کی حالت دیکھی تو بہت ترس آیا۔ پوچھا گزارہ کیسے ہوتا ہے ؟ ہم نے کہا ہوائی روزی ہے ۔کبھی کام مل گیا کبھی نہ ملا۔جب بہت ہی ہاتھ تنگ ہوجاتا ہے تو سامنے والے لی پا سے کچھ ادھار لے لیتے ہیں۔لی پا بہت نیک دل ہے۔ہماری اس کی دوستی کا قصہ یوں ہے کہ ہمارا ہمسایہ جو کبھی دیوار گرانے کی دھمکی دیتا تھا کبھی گھر کے سامنے پیشاب کرتے ہوئے گزر جاتا ۔ایک دن جب اس نے ایسی ہی کوئی حرکت کی تو لی پا سے نہ رہا گیا۔ اس کا گریبان پکڑ کے جھنجوڑا کہ خبردار جو آئندہ کبھی میر صاحب سے بدتمیزی کی ۔دانت توڑ کے بتیسی ہاتھ میں پکڑا دوں گا۔بس تب سے کچھ سکون ہے۔ساربان نے ہماری کتھا دھیان سے سنی ، مخمل کی پوٹلی میں سے کچھ سکے نکالے اور ہماری مٹھی بند کرتے ہوئے بولا یہ کوئی بخشش نہیں۔ایک نئے دوست کی نشانی ہے۔اس نے ہمیں تسلی دی کہ عنقریب وہ اپنی نئی حویلی بنوائے گا اور ہمارے گھر میں سے جو بھی اس کی تعمیر میں حصہ لینا چاہے اہلا و سہلا مرحبا۔اور کچھ دنوں بعد اس مہربان نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ گھر کے بچوں کو کام مل گیا۔زندگی قدرے آسودہ سی لگنے لگی۔
پھر ایک دن عرب ساربان کی حویلی کا کام ختم ہوگیا۔ہم نے چند روز انتہائی پریشانی میں گزارے۔لی پا بھانپ گیا۔ہنس کے کہنے لگا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو۔میں نے کریڈٹ پر چیزیں دینے کا کاروبارشروع کیا ہے۔تمہارا ایک کمرہ میں گودام کے طور پر لے لیتا ہوں۔تمہیں معقول کرایہ ملتا رہے گا۔ہم جھٹ سے رضامند ہوگئے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے پریشانیوں میں ہی گزر رہی ہے مگر کوئی نہ کوئی وسیلہ اللہ تعالی بنا ہی دیتا ہے۔اللہ بہت کارساز ہے ۔