یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ’’ہم چھوٹے تھے، امی ہمیں مارتی تھیں، ہم روتے تھے۔‘‘ ہم لاہور میں ہوتے تھے،،وہاں ہر مکان کی چھت کو’’ کوٹھا‘‘کہا جاتا تھا، ہم اسی کوٹھے پہ سوتے تھے۔ وہاں پر چھوٹے چھوٹے گملے رکھے ہوتے تھے، ہم ان میں رائی کے بیج بوتے تھے،ان سے کونپلیں پھوٹتیں، توہم بے حد خوش ہوتے تھے۔ ہمارا قلب و ذہن ہمیں باور کراتا کہ یہ گملا ہماری زمین ہے ،اس میںہم نے رائی کی ’’فصل‘‘ اُگائی ہے ، یہ کھیتی ہے ،ہم کسان ہیں اور ہمارا وطن اک زرعی ملک ہے جس کا نام پاکستان ہے ۔اس کا ہر شہری ایک انسان ہے، سادگی ہماری پہچان ہے ،محنت ہماری شان ہے ، اردو ہماری قومی زبان ہے ، ہمیں یہ بھی سمجھایا گیا کہ ہر لڑکی ہماری باجی ہے اور ہر لڑکا ہمارا بھائی جان ہے ، جس پر تل لگے ہوئے ہوں وہ قُلچہ ہے اور جو قُلچہ تلوں کے بغیر ہو وہ نان ہے ۔جس سے ہمیں آواز سنائی دیتی ہے وہ کان ہے اور مکان کا وہ حصہ جہاں گھاس اُگی ہوئی ہو، وہ لان ہے،جس کی پیک جگہ جگہ تھوکنا منع ہے وہ پان ہے ، کوئی گلوکار نغمے کی شکل میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے تو وہ تان ہے اور جس کے ٹوٹنے سے انسان اندر سے خود کو نیم مردہ محسوس کرنے لگتا ہے ، وہ ’’مان‘‘ ہے۔یہ سب باتیں ہمیں امی جان نے اس وقت سمجھا دی تھیں جب ہم اسکول میں داخل نہیں ہوئے تھے،ہم قدرے ’’جاہل‘‘ تھے، عاقل نہیں ہوئے تھے،ہم کسی شخصیت کی جانب مائل نہیں ہوئے تھے، کسی کے ’’تیروں‘‘ سے گھائل نہیں ہوئے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ایک روز امی جان نے ہمیں لال اسکول میں داخل کروا دیا۔ یہ حکومتی اسکول تھا۔ بڑے بڑے کمرے ، ہر جماعت میںدرجنوں بچے، متعدد استاد اور وافر تعداد میں استانیاں،کھیل کے لئے وسیع و عریض میدان، جا بجاخود رو انداز میں اُگی ہوئی گھاس،چہار دیواری کے ساتھ چیڑ، تاڑ ، سفیدے اور سرو کے لہلہاتے درخت۔طویل برآمدے جہاں سردیوں کے موسم میںوضع وضع کے رنگ برنگے ملبوسات میں ملبوس ’’اسکول بھر‘‘ کی استانیاں کلاسوں میں اپنی ذمہ داریاںمانیٹر کو سونپ کر دھوپ سینکنے کے لئے آبیٹھتیں ، اون اور سلائیاں ان کے ہاتھ میں ہوتیں، سویٹر بنتیں، مونگ پھلی کھاتیں، چائے منگواکر پیتیں،ان میںپرائمری کلاسوں کی استانیاںالگ بیٹھتیں اور مڈل و میٹرک کی استانیاں ذرا ہٹ کے بزم جماتیں۔ پرائمری والیاںمستقبل کے سہانے خوابوں کے موضوع پر تبادلہ خیال کرتیں۔ وہ ایک دوسرے سے دریافت کرتیں کہ سنو! تمہارے منگیتر نے عید پر کیا تحفہ بھیجا ؟ کوئی کہتی کہ میرے ہونے والے سسرال سے مٹھائی آئی تھی۔ کوئی کہتی کہ کل میرے لئے ایک رشتہ آیا تھا، لڑکا دبئی میں ہے۔ میری امی نے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ میںبیٹی کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتی۔مڈل اور میٹرک کی استانیوں کی گفتگو ذرا ہٹ کر ہوتی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اپنے شوہر کے شکوے کرتیں اور ساس سسر کی زیادتیوں کا رونا روتیں۔ کوئی کہتی کہ خواہش تو میری بھی خلع لینے کی ہے مگر کیا کروں، دو بچے ہیں، ان کا خیال آتا ہے کہ ان کی شخصیت بکھر کر رہ جائے گی۔تیسری کہتی کہ میری شادی کو 5سال ہوگئے، اولاد ہی نہیں ہوئی، اب میاں صاحب فرما رہے ہیں کہ میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تو استانیوںکا حال تھا، ہمارا سیکشن اس حوالے سے ’’بدقسمت‘‘ شمار ہوتا تھا کہ ہماری جماعت کے انچارج ایک استاد تھے۔ وہ اسکول بھر میں ’’مرغ ساز‘‘ مشہور تھے۔ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ مرغ ساز کیا ہوتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو مس عقیلہ کا،انہوں نے ہمیں بتا دیا۔ ہوا یوںکہ ایک روز وہ برآمدے میں دھوپ سینکتے ہوئے سویٹر بن رہی تھیں کہ اون کا گولہ انکی گود سے زمین پر گرا اور گیند کی طرح دور تک لڑھکتا چلا گیا ۔ ہم وہیں سے گزر رہے تھے، اون کا گولہ ہمارے قدموں میں آ گیا۔ ہم نے گولہ اٹھایا اور اون اس پر لپیٹتے ہوئے مس عقیلہ کی جانب بڑھنے لگے۔ انہوں نے ہمارا شکریہ ادا کرنے کے بعد پوچھا کہ تم اسی ’’مرغ ساز‘‘ کی کلاس میں ہوناں؟ ہم نے جی کہتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ مرغ ساز کیا ہے؟ مس عقیلہ نے کہا کہ تمہاری جماعت کے انچارج بچوں کو مرغا بنانے کے عادی ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھاتے لکھاتے نہیں بلکہ مرغا بنانے کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ انکی جماعت میں ہر وقت دس 12بچے مرغے کی پوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں،اسلئے انہیں ’’مرغ ساز‘‘ کہا جاتاہے ۔ہم مس سے گفتگو کرنے کے بعد جیسے ہی کمرۂ جماعت میں پہنچے تو استاد جی نے کہا ’’کہاں گھوم رہے تھے نواب صا حب! چلو فوراً مرغا بن جائو۔ہم یونہی مرغا بنتے بنتے میٹر ک میں پہنچے ، گرتے پڑتے نمبرلیکر پاس ہوئے اور اسکول سے جان چھوٹ گئی ۔ 4دہائیوں کے بعد 2017ء میں ہم ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو اپنا اسکول دکھانے کے لئے لے گئے۔ وہاں داخل ہوئے تو اسی طرح برآمدوں میں دو گروہوں میں منقسم استانیاں بیٹھی تھیں، دھوپ سینک رہی تھیں،ایک گروپ مستقبل کی راہوںمیںارمان بو رہا تھا اور دوسرا گروپ سسرالی مظالم بیان کر کے اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔استاد جی کے کمرے میں مرغ سازی کا سلسلہ جاری تھا، 18لڑکے مرغا بنے ہوئے تھے۔ سب سماں وہی تھا، فرق اتنا تھا کہ یہ ہمارے زمانے کے استاد اور استانیاں نہیں تھیں بلکہ ان کی اولادیں تھیں۔پچھلے دنوں ہمیں وطن جانے کا موقع ملا۔ اپنے ’’لال اسکول‘‘ میں ایک کام تھا، وہاں پہنچے تو سردی کے باوجود برآمدے خالی، کسی کلاس میں کوئی ’’مرغ ساز‘‘ دکھائی نہیں دیا۔ ہم نے کہا کہ یہ کیا ہوا؟ ساری رونقیں کہاں گئیں، جواب ملا کہ حالات میں ’’تبدیلی‘‘آگئی، رونقیں غائب ہوگئیں، کام شروع ہو گیا، مرغ ساز مرغے لڑا رہے ہیں، استاد سبق پڑھا رہے ہیں۔