Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکین سے مرافقین فیس لیکر انہیں بھی کچھ دیا جائے!

ڈاکٹر صالح السلطان ۔ الاقتصادیہ
ہر اقتصادی فیصلے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار یہ فیصلہ ساز کے مقررہ اہداف سے میل کھاتے ہیں اور کبھی نہیں۔ اقتصاد کا معاملہ عمل اور ردعمل جیسا ہوتا ہے۔ فیصلہ اچھائیوں اور برائیوں کے تقابل سے ہوگا۔ فیصلہ متعدد بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ فیصلے کے اثرات کے سلسلے میں علم، فہم اور انصاف سب موثر کردارادا کرتے ہیں۔ 
میرا یہ کالم بہت زیادہ تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اختصار کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فیصلے کے بعض اثرات محدود المیعاد ہوتے ہیں۔ ہفتوں اور مہینوں تک محدود ہوتے ہیں۔ یا ہفتوں اور مہینوں میں سامنے آجاتے ہیں۔ بعض اوسط درجے کے ہوتے ہیں۔ 3سال تک لگ جاتے ہیں۔ بعض 15سال تک محیط ہوتے ہیں۔ کئی متعدد عشروں تک پھیل جاتے ہیں۔ اب میں اپنی بات کہنا چاہوں گاا ور وہ یہ کہ تارکین وطن پر منحصر حالات کو تبدیل کرنا آسان ہے لیکن اتنا کافی نہیں۔ اسکی لاگت کیا ہوگی؟ دورانیہ طویل ہوگا تو ایک طرف لاگت کم ہوگی اور دوسری جانب زیادہ ہوگی۔بے روزگاری کے دورانیے کو لے لیجئے اگر یہ طویل ہوگا تو اسکے اپنے مسائل بھی ہونگے۔ بہت سارے عناصر لاگت کی کمی بیشی پر اثر ا نداز ہونگے۔ جہاں تک سعودائزیشن کو کامیاب بنانے کیلئے مرافقین فیس کے اثرات کا تعلق ہے تو اسے پیشے اور وقت کے حوالے سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کونسے پیشے ایسے ہیں جنہیں تارکین اپنائے ہوئے ہیں۔ کونسے پیشے ایسے ہیں کہ جن میں سعودی شہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسا ہر پیشہ جس میں مقامی شہریوں کی رغبت کم سے کم تر ہوگی ایسے پیشوں میں تارکین وطن پر مرافقین فیس بڑھانے سے سعودائزیشن کے ہدف کا دائرہ بھی محدود ہوجائیگا۔ ان پیشوں کے حوالے سے بہتر ہوگا کہ مرافقین فیس مناسب ہو اور مناسب شکل میں ہی رفتہ رفتہ بڑھائی جائے۔ جہاں تک وقت کا تعلق ہے تو ہم فرض کرلیتے ہیں کہ مقامی شہری ہر پیشے کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہیں۔ ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ ایسا ہوجائے۔ تاہم زمینی حقیقت بعض پیشوں کے حوالے سے مختلف ہے لہذا متروکہ پیشوں میں تارکین کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں برسر روزگار رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
بعض پیشے ایسے ہیں جنہیں سعودی پسند کرتے ہیں لیکن ان پیشوں کیلئے مطلوب سعودیوں کی فراہمی وقت چاہتی ہے۔ پھروقت جیسے جیسے گزرتا ہے ویسے ویسے آبادی بھی بڑھ رہی ہے لہذا یہ ضرورت محض موجودہ تارکین کو رخصت کرنے سے حل نہیںہوگی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھاری تعداد میں اگر اس قسم کے پیشوں پر کام کرنے والے تارکین کو روانہ کردیا جائے اور انکی جگہ مقامی شہریوں کو لانے کا پروگرام بنایا جائے تو مطلوبہ تعداد میں مقامی شہری مہیا نہ ہونے کی وجہ سے بات نہیں بنے گی۔ ہمیں مزید غیر ملکی درآمد کرنا ہونگے۔ مثال کے طورپر میڈیسن، اکاﺅنٹنٹ اور انجینیئرنگ وغیرہ کے شعبے ایسے ہیں جن میں سعودی کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ اب تک ان شعبوں پر غیر ملکی چھائے ہوئے ہیں۔ اگر ان شعبوںمیں کام کرنے والے بیشتر تارکین کو رخصت کردیا گیا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ فیس کی مقدار کے سلسلے میں تارکین اور انکے اہل خانہ کے درمیان فرق کیا جانا چاہئے۔ بعض سرکاری خدمات کی لاگت کے عنوان سے تارکین اور انکے مرافقین کے درمیان فیس میں فرق کیا جانا ضروری ہے۔ ہمارے سامنے 4فریق ہیں۔ ایک تو خود غیر ملکی اور اس کے اہل خانہ ہیں۔ دوم آجر ہے۔ سوم پیداواری لاگت ہے۔پیداوار میں وسیع معنوں میں لے رہا ہوں۔ چوتھے حتمی نرخ ہیں جو صارفین ادا کرتے ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کہ سامان فروش خریدار یا صارف پر یہ ساری فیسیں عائد کرسکتا ہے۔ سامان فروش فیس کی لاگت پوری کرنے کیلئے کسی بھی چیز کی قیمت بڑھانے کے سلسلے میں مکمل طور پر بااختیار نہیں۔ اسے قانون طلب و رسد کی پابندی بھی کرنا پڑتی ہے۔ اگر اس نے حد سے زیادہ نرخ بڑھا دیئے تو طلب گھٹ جائیگی۔ 
تیل کے ماسوا ریاست کی آمدنی کے ذرائع کا تعلق تین امور سے ہے۔ 1۔فیس عائد کرنے کا جواز سعودائزیشن کے جواز سے مختلف ہے۔ 2۔ ریاست کو کتنی آمدنی ہوگی، 3۔ مستقبل میں ریاست اس پر کس حد تک انحصار کرسکے گی۔ دوسرے اور تیسرے سوال کا جواب مختلف حالات کو سمجھنے پر منحصر ہے۔ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تواس کی بابت کہا جاسکتاہے کہ حکومت مختلف خدمات کے بدلے فیس عائد کرسکتی ہے۔ یہ اسکے لئے فیس کا جواز ہوگا۔ان سہولتوں سے شہری اور غیر شہری سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جہاں تک اداروں کے حجم اور فیس کے فیصلے سے انکے متاثر ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بس اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ادارہ جتنا چھوٹا ہوگا اور تارکین پر اس کا جتنا زیادہ انحصار ہوگا اتنا ہی فیس سے وہ زیادہ متاثر ہوگا۔ اسکا باعث اقامہ نظام ہے۔ 
ایک حل افرادی قوت کی درآمد کو محدود کرنا بتایا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فطری حل ہے۔ اگر سعودی عرب میں کام کرنے والے تارکین وطن کو آجر کی تبدیلی کی آزادی دیکر اس پر فیسیں عائد کی جائیں تو یہ انکے لئے قابل قبول ہوگا۔ اسکی بدولت ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں منتقلی کا حجم کم بھی ہوگا اور زیادہ بھی ہوگا۔غیر ملکیوں کے لئے سعودی لیبر مارکیٹ کی کشش کم ہوگی۔جہاں تک دوسرے حل کا تعلق ہے کہ تارکین کو ہر طرف سے باندھ دیا جائے اور ان پر مرافقین فیس عائد کردی جائے ایسی صورت میں غیر ملکیوں کے اہل خانہ کثیر تعداد میں مملکت کو خیر باد کہہ دیں گے اور تارکین جو کچھ کمائیں گے اس کا بڑا حصہ بچت کی صورت میں ا نکے پاس ہوگا اور اسے وہ وطن بھیجنے کا اہتمام کریں گے۔ یہ مسئلہ بجائے خود غور طلب ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: