کراچی (صلاح الدین حیدر) عمران خان نے جب منصب اعلیٰ سنبھالا تھا تو انہوں نے قوم سے عہد کیا تھا وہ ٹیکس سسٹم میں پائے جانے والی کمزوریوں کو پہلی فرصت میں دور کریں گے اور مختلف اقسام کے ٹیکس جمع کرنے والے محکمہ جسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کہتے ہیں کو فرائض کی ادائیگی کےلئے سہولتیں پیدا کی جائینگی۔ کسی حد تک تو اس مسئلے پر توجہ دی گئی لیکن جس قدر اہمیت اسے ملنی چاہیے تھی وہ ابھی تک نہیں دی جاسکی۔ یہی وجہ کہ نئی حکومت کے 100 دن پورے ہونے کے بعد بھی آج مسائل پہلے سے بھی زیادہ گھمبیرنظر آتے ہیں۔ کچھ باتوں کا تو عمران خان نے خود ہی اعتراف کیا کہ وزراءکے درمیان آپس میں تبادلہ خیال کا فقدان ہے۔ کچھ آپس کی حسد اور جلن بھی جو کسی بھی انتظامیہ کے لئے خواہ وہ حکومت ہویا کوئی تجارتی ادارہ یا تنظیم کے لئے سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ ریونیو بورڈ یا ایف بی آر کے طرز عمل پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے زمانے سے ہی ان کے احکامات کا پابند تھا۔ انہوں نے نظام ہی ایسا ایجاد کیا تھا۔ اب وزیر خزانہ اسد عمر نے ایف بی آر کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا۔ ان کے سامنے مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ ایف بی آر کے چیئرمین جہانزیب خان ایف بی آر کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔ انہوں نے 22 گریڈ جو کہ پاکستان حکومت کے سرکاری افسران کا سب سے اعلیٰ عہدہ مانا جاتا ہے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ ان کے اور وزیر خزانہ کے درمیان کتنی ہم آہنگی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی بھی ہے کہ نہیں یا محض اوپر سے دکھانے کے لئے وہ ایک وسرے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ کا اس بات پر زور دیتا دکھائی دیتا ہے کہ ٹیکسوں کے گوشوارے نہ جمع کروانے والوں کو 20 فیصد پینلٹی لگا کے کام چلایا جاتا رہے۔ ایسا زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا۔ اسد عمر کو غور و خوض کرنا پڑے گا کہ ایف بی آر کے تمام محکمے جس میں سیلز ٹیکس، کسٹم، انکم ٹیکس سب ہی یہاں یکجا ہوکر کام کر سکیں۔ ان میں یکجہتی ہو تاکہ حکومت کے خزانے میں زیادہ سے زیادہ اور جلد اضافہ ہوتا رہے جو کہ وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اگر صرف ایف بی آر ایکٹ کو صحیح طریقے سے چلایا جائے تو پاکستان کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے کرپشن اور بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کو ختم کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ ایف بی آر ایکٹ اب تک صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے۔