Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمارے معدنی وسائل آخر کب کام آئینگے

***ڈاکٹر منصور نورانی***
یہ ملک و قوم کی بد نصیبی ہے کہ اُسے معرض وجود میں آئے ہوئے 71سال بیت چکے ہیں لیکن وہ اب تک اپنے خو د کفالت اور خود مختاری کے حسین اور باوقار حساسات سے بہرہ مند نہیں ہوپائے ہیں۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم ابھی تک وہی کشکول تھامے دردرکی ٹھوکریں کھا رہے جسے ہمارے حکمرانوں نے ہمیں 70 سال پہلے تھمادیا تھا۔سوچا جائے تو یہ بڑی ذلت و رسوائی کامقام ہے کہ ساتویں ایٹمی قوت بن جانے کے باوجود یہ کشکول ہمارے ہاتھوں سے ابھی تک چھوٹا نہیں ۔مقام افسوس ہے کہ ہم اپنی زمینوں میں چھپے قدرت کے عطا کردہ خزانوں کو بروئے کار لاکر اپنی حالت کے بدل جانے کا کوئی طریقہ نہیں سوچتے اور ہر دو چار سال بعد خزانے کے خالی ہوجانے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے دوست ملکوں کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی منت سماجت پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ہماری تمامتر صلاحیتیں اور قابلیتی ںصرف اِسی طرح مفت کی مئے پینے پر سرف ہوتی رہتی ہیں۔ہماری حد نگاہ اِس سے آگے بڑھتی ہی نہیں۔ہم خود سے کوئی تدبیر اور راہیں تلاش کرنے کی جستجو سے یکسر محروم ہیں۔دوسرے ملکوں کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کی ترقی و کامرانی سے متاثر تو ضرور ہوتے ہیں لیکن اُنہیں اپنانے میں ہمارا عزم و حوصلہ نجانے کیوں پست ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ تمام غذائی اجناس کی فراوانی کے علاوہ ایسی کون سی نعمت ہے جو قدرت نے ہمیں دینے سے انکار کیا ہو۔پھل فروٹ ، گندم ، چاول ،کپاس اور لاتعداد معدنی ذخائر جن کیلئے دنیا کی کئی قومیں ترستی ہیں سبھی کچھ ہمارے یہاں موجود ہے مگر ہم پھر بھی ہاتھ پاؤں باندھے لاچار اور مجبورقوم بنے کسی دوسرے کی مہربانیوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ہم چاہیں تو قدرت کی اِن بیش بہا نعمتوں کی ایکسپورٹ بڑھا کر اپنے ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرسکتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ سارے مڈل ایسٹ اور مشرقی وسطیٰ کی ممالک میں لوگ ہند سے برآمد کردہ چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ہمارا تاجر او رہماری حکومت اِس جانب توجہ کیوں نہیں دیتے۔آپ دبئی چلے جائیں یاسعودی عرب ہر جگہ اور ہرشہر میں ریڈی میڈ گارمنٹس سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر شہ پر میڈ اِن انڈیا کی مہر لگی ہوتی ہے اور ہم صرف کینو اورآم فروخت کرکے اطمینان اور سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔ہند ساری مسلم دنیا میں اپنی اشیاء فروخت کرکے نہ صرف کثیرمقدار میںذرمبادلہ کمار رہا ہوتا ہے بلکہ وہاں کے باسیوں کو اپنی چیزوں کاعادی اور محتاج بھی بنا رہا ہوتاہے جبکہ ہمارا تاجر خاموش تماشائی بنکراپنی بے حسی اوربے بسی کا بھر پورمظاہرہ کررہا ہوتا ہے۔نہ وہ خود اِس سمت میں آگے بڑھنے کا سوچ رہا ہوتا ہے اورنہ ہمارے حکمراں اُسے اِس جانب ترغیب دلانے میں کوئی مدد او ر سہولت فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سب کے سب غیب سے کسی مدد کے آجانے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
قوم 10سالوں سے سینڈک اور رکوڈک کے خزانوں کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہی ہے لیکن عملی طور پر زمین میں چھپے اِن خزانوں کو باہر نکال کر بروئے کار لانے کی کوئی کامیاب اور نتیجہ خیز کوشش ہنوز سامنے نہیں آئی۔سابقہ ادوار میں ایک عجیب اور غیر منطق کوشش کی گئی تھی جس کے تحت اِن خزانوں کو زمین سے نکالنے کا  انتہائی غیر مناسب اوریکطرفہ شرائط مر مبنی ٹھیکہ ایک بین الاقوامی     فرمـ " ٹیٹھیاں" کو دیدیا گیا جس میں منافع کے 75فیصدحصص اُسی کمپنی کو دید ئے گئے اور بلوچستان کے حصے میں محض 25فیصدی حصص قرار پائے۔اِس معاہدے کو بعد ازاں اِسی وجہ سے منسوخ اور مسترد کردیا گیا ۔ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی عالمی عدالت جا پہنچی ۔فیصلہ حسب دستور ہمارے خلاف اور کمپنی کے حق میں آگیا ۔ایسا ہی ایک غیر منطقی فیصلہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے دور میں بھی کیاگیااور بجلی بنانے کیلئے رینٹل پاور منصوبے کے تحت ترکش کمپنی کو ایک ٹھیکہ ایسا دیدیا گیا جس میں تمام شرائط اُس کمپنی کے حق میں تحریر کردی گئیں ۔نتیجہ اُس کا بھی وہی ہوا جو ٹیٹھیان نامی کمپنی کاہوا تھا۔ اب قوم زندگی بھر اپنے حکمرانوں کے ایسے ہی غیر منطقی کاموں کے جرمانے اور خسارے ہی بھرتی رہے گی۔
ہمیں اچھی طرح یاہے کہ 2015ء میں میاں نواز شریف اور اُن کے چھوٹے بھائی  شہباز شریف نے قوم کو چنیوٹ کے حوالے سے خوشخبری سنائی تھی کہ وہاں سونے چاندی ، لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر دریافت ہوگئے ہیں جنہیں استعمال کرکے یہ قوم اب کسی کی محتاج نہیں رہے گی۔پھر کیا ہوا کسی کو پتا نہیں۔وہ خوش خبری بھی ہواؤں میں تحلیل ہوگئی۔سینڈک اور ر کوڈک کے خزانوں کی طرح چنیوٹ کا یہ خزانہ بھی اگلی کئی صدیوں تک شاید یونہی زمینوں میں ہی دفن رہے گا۔ اگر نکالا بھی گیا تو اُس کا 75فیصدی حصہ کسی اور کمپنی کو تفویض کردیاجائے گا۔اِس لاوارث قوم کے حصہ میںصرف اور صرف عالمی عدالتوں کی طرفسے عائد کردہ جرمانے اور تاوان ہی رہ جائیں گے۔
اِسی طرح تھر کے علاقے میں کوئلے کے ذخائر کے بھی بہت شادیانے اوربگل بجائے گئے۔اگلی کئی صدیوں تک اُن سے بجلی بنانے کے ایسے دلکش اور سحر انگیز منصوبے بنائے گئے کہ قوم کو اپنی خوش قسمتی پررشک آنے لگا۔لیکن پھراِس کا انجام بھی وہی ہوا جو ہماری خوشحالی کے دیگر منصوبوں کا اب تک ہوچکا تھا۔قدرت کی عطاکردی اِن بیش بہا نعمتوں کے باوجود ہم اِس دنیا کی واحد قوم ہیں جس کاکشکول کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین  عمران خان نے الیکشن جیت جانے سے پہلے بہت بڑے بڑے اوربلند بانگ دعوے کئے تھے کہ وہ اِس کشکول کو ٹوڑ دینگے اور کبھی دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔اُن کی باتیںسنکر ایسا لگتا تھا کہ وہ شاید بہت بڑے انقلابی شخصیت کے مالک ہیں۔ اُن کادلفریب ویژن دیکھکر قوم دھوکے میں آگئی اوراُنہیں اپنے بھر پور مینڈیٹ سے سرفراز کردیا ۔تبدیلی اور انقلاب کے حسین اوردلکش نعروں کا بھرم صرف سودنوں میں ہی پاش پاش ہوگیا۔اُنہوں نے جو جودعوے اورجوجو وعدے کئے تھے وہ سبھی چند روز میں ہی زمیں بوس ہوگئے۔ملک کو بے مثال ترقی یافتہ بنانے کے سبھی خواب لمحہ بھر میں چکنا چور اورریزہ ریزہ ہوگئے۔اُن کے باتوں میں نہ اب وہ ویژن ہے اور نہ وہ ولولہ ۔ملک کو ملائشیا کی طرح خود کفیل اور خودمختار بنانے کی ساری باتیں ہوا ہوگئیں۔اپنے اقتدار کے سودن پورے ہونے پر اُنہوں نے جو تقریر کی اُس سے کہیں یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ وہی عمران ہے جو ڈی چوک پر لوگوں کو ذہانت او رقابلیت کے بڑے درس دیا کرتا تھا۔جو خوشحالی اور کامرانی کے ایسے ایسے منصوبے سنایا کرتا تھا جن کو سنکر ہماری قوم تو کیا ماؤزے تنگ کی روح بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔قوم سمجھ رہی تھی کہ عمران خان اُسے قوموں کی برادری میں ایک باوقار اور باعزت مقام دلائے گا۔ وہ اپنے وسائل سے ملکی معاملات چلائے گا۔وہ کسی سے بھیک نہیں مانگے گالیکن پتا یہ چلا کہ یہ تو پرانے حکمرانوں سے بھی کم ہمت اور کم حوصلہ ہے۔ اُس نے تو امداد اورقرض مانگنے میںکوئی شرم اورعار محسوس نہیں کی۔اُن ملکوں سے بھی مانگ لیاجن سے ہمارے کسی اور حکمراں نے اب تک نہیں مانگاتھا۔100 دن پورے ہونے پر اُس نے ملک کے معدنی ذخائر کی کوئی بات نہ کی۔اُسنے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اگلے5 برسوں میں کیاانقلاب برپا کریگا۔اُس نے پی آئی اے او ر اسٹیل مل کی حالت بدلنے کی بات بھی نہ کی۔اُس نے تو صرف انڈے ، مرغیوں اور بھینس کے کٹوں سے حالات سنوارنے کی باتیں کی۔اُس کے اِس ویژن کو دیکھ کرتو لوگ اب قائم علی شاہ کویاد کرنے لگے۔انفرااسٹرکچر سمیت ترقی و خوشحالی کے نئے اور بڑے منصوبے پیش کرنے کی بجائے ہمارے اِس وزیراعظم نے پہلے سے جاری تمام منصوبوں پر بھی قدغنیں لگادی ہیں۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی بھینس کے کٹوں اوردیسی مرغیوں کی افزائش سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا سوچ رہے ہیں۔ 
 

شیئر: