Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشی صورتحال گمبھیر ضرور، خوفناک نہیں

***ڈاکٹر منصورنورانی***
رفتہ رفتہ یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی کی نئی جمہوری حکومت کو ورثہ میں ملنے والا معاشی بحران اِس قدر شدید تھا ہی نہیں جتنا کہ اُس کے بارے میں واویلا مچایاجارہا تھا۔پی ٹی آئی کی حکومت نے اِس حوالے سے وہی اسٹریٹجی اپنائی جو وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سابقہ نواز حکومت کے خلاف استعمال کرتی رہی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ خان صاحب نے الیکشن کے بعد جب عنان حکومت سنبھالا تو ہمارے خزانے میں زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہی تھے جس میں سے خود اسٹیٹ بینک کے پاس 9ارب ڈالر تھے اور باقی پرائیویٹ بینکوں کے پاس تھے۔حالیہ تازہ رپورٹ کے مطابق اِن 3 ماہ میں وہ گھٹ کر 14ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔یہ صورتحال یقینا اُن دنوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہی ہے جو 2013ء میں میاں صاحب کو ملی تھی۔ اُس وقت قومی خزانے میں صرف 11ارب ڈالر موجود اور ملک و قوم کو دو بڑے بحرانوں کو سامنا بھی تھا۔جس میں ایک بجلی اورتوانائی کا بحران اور دوسرا دہشت گردی کی عالمی جنگ کے نتیجے میں سارے ملک کے اندر بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے شکستہ معاشی و اقتصادی حالات۔اِس کے باوجود میاں نوا ز شریف کی حکومت نے اتنا شور و غل نہیں مچایا۔ اُس حکومت نے ہمت و جرأت کے ساتھ سارے معاملات نمٹائے اور پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے تک زرمبادلہ کے ذخائر کو 24ارب ڈالر کی حدوں تک پہنچا دیا۔یہ 70 سالہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ممکن ہوپایاتھا کہ ملکی خزانہ 24ارب ڈالر کی حدوں کو چھو گیا۔ اِس کے بعد جو ہوا وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ غیر مستحکم اور غیریقینی سیاسی صورتحال نے اِن ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا اور ترقی و کامرانی کو ریورس گیر لگ گیا۔
موجودہ معاشی و اقتصادی صورتحال مشکل اور پیچیدہ ضرور ہے لیکن وہ اتنی خوفناک اور گھمبیر بھی نہیں ہے جتنا کہ بیان کیا جارہا ہے۔جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے خو د حکومتی وزراء دبے لفظوں میں اِس کااعتراف کرنے لگے ہیں۔وزیراعظم کے سعودی عرب اور چین کے دوروں کے بعد یہ کہا جانے لگا ہے کہ غیر ملکی ادائیگیوں کا بحران اب ٹل گیا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو چین کے 5 روزہ سرکاری دورے میں بیل آؤٹ پیکیج کی شکل میں ہمیں ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔جو کچھ ملا بھی تو وہ منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ حیران کن بات ہے کہ جب ہمارے خالی کشکول میں ابھی تک کسی نے کچھ بھی نہیں ڈالا ہے تو ہمارا مالی بحران بھلاکیسے ٹل گیا ۔اِس کا مطلب ہے کہ جس بحران کے بارے میں اتنا شور اورواویلا مچایاگیا تھا حقیقتاً اُس کا کوئی وجود ہی نہیں تھایاپھر وہ اتنا شدید اور خوفناک نہیںتھا جتنا کہ قوم کو باور کیاگیاتھا۔
خان صاحب اورر اُن کے رفقاء کی مجبوری ہے کہ وہ ابھی تک اپوزیشن کے دور سے خود کو نکال نہیں پائے۔اُنہوں نے ساری زندگی اپوزیشن ہی کا رول ادا کیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ قسمت نے اُن پر مہربانی کی اور اُنہیں عنان حکومت سے سرفراز کردیا۔ رفتہ رفتہ جب اُنہیں یقین ہونے لگے گاکہ قوم اِن باتوں سے اب بیزار ہونے لگی ہے اوروہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے کچھ دیکھنا چاہتی ہے تو وہ پھر صحیح سمت میں آگے بڑھنے لگیں گے۔ چین کے دورے نے اُن کی آنکھیں کھول دی ہیں اور انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ کوئی ہم پر رحم کھاکر اب یکطرفہ طور پرہمیں بھیک اورامداد دینے پر راضی یا رضامند نہیں ہیں۔ ساری دنیا کے اپنے مسائل اور مصائب ہیں۔وہ بلاوجہ کسی کو اپنی دولت کیوں لٹانے لگیں۔آج ہمارے وزیرخزانہ ہمیں یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ بے شک قومی خزانے میں ابھی تک ایک ڈالر بھی نہیں آیا ہے لیکن ہمارا ادائیگیوں کا بحران اب ٹل چکا ہے۔
ادائیگیوں کے بحران کے ٹل جانے کے اسباب اور محرکات کیا ہیں اِن کا تو ہمیں نہیں پتا لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ حکومت اب خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آئی ہے۔اُسے احساس ہونے لگا ہے کہ قوم کو اب مزیدپروپیگنڈے میں مبتلا نہیں رکھا جاسکتا۔لوگ اب حکومت کی کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔صرف غیر ملکی امداد پر انحصار اب ممکن نہیں رہا۔دنیا کی دیگر قومیں اب مفت میںہمیں اپنا بخار بھی دینے کو تیار نہیں۔ چین نے امداد سے انکار کرکے دیکھاجائے توہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ درس تو خان صاحب ہمیں گزشتہ 22سالوں سے دیتے آئے تھے۔وزیراعظم کی حیثیت میں خالی کشکول تھامے دردر کی ٹھوکریں کھاناانہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔اُنہیں شرم آتی تھی کہ ہمارا وزیراعظم قرض لینے کی خاطر ملکوں ملکوں گھومتا پھر رہا ہو۔آئی ایم ایف سے قرض لینے کو بھی وہ بہت برا سمجھاکرتے تھے۔پھر نجانے انہیں کس نے پٹی پڑا دی کہ مالی مشکلات سے نکل جانے کیلئے سب سے آسان اورسہل طریقہ یہی ہے کہ پرانی کہی گئی باتوں کو بھول کر امداد کے لئے دوست ممالک کے دورے پر نکل کھڑے ہوں۔ لگتا ہے حکومت آج کے بعد طلسماتی اور خیالی دنیا سے باہر نکل آئے گی اور کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کو امرت دھارا سمجھنے کی بجائے کارکردگی کے حوالے سے کچھ کردکھانے پر مجبور ہو گی۔دیکھاجائے تویہی اِس دورے کی بڑی کامیابی ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں