بی جے پی اور کانگریس سٹھیا گئیں
***سید اجمل حسین ***
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس پارٹیوں کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ دونوں سٹھیا گئی ہیں تو غلط نہ ہوگاکیونکہ دونوں ہی اپنی عمر کی اس حد پر پہنچ چکی ہیں جہاں کئی معاملات میں انسانوں کی طرح ان کے نظریات و خیالات اور فیصلوں پر معاشرہ، برادری اور نئی نسل کی خوشنودی کا رجحان مسلط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جیسے ہی انتخابی موسم آتا ہے جو کہ ہندوستان کے مشرق بعید میں واقع شہر چیرا پونجی کے موسم کی طرح ہے جہاں سال کے 12مہینے برسات کا موسم رہتا ہے،یہ دونوں پارٹیاں ایسے موضوعات کو انتخابی مہم کے دوران قصر اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ بناتی ہیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لوگ دماغ سے زیادہ دل سے سوچتے ، بھیڑ چال چلتے ، اورجذبات کی لہروں میںبہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے عوامی رجحانات کے عین مطابق اب راہ اختیار کرلی لیکن جب 2014کے انتخابات آئے تو ہندوستانی سیاست میں پہلی بار بی جے پی نے ترقی، اچھے دن اور کرپشن سے پاک معاشرہ جیسے وہ معاملات اٹھائے جن کا ہندوستانی عوام نے تصور کیا تھا اور نہ ہی اس سے قبل کبھی کسی پارٹی نے ذکر کیا تھا۔ جس طرح کسی دور میں اندرا گاندھی غریبی ہٹاؤ کا نعرہی لگا کر سارے ووٹ سمیٹ لے گئی تھیں اسی طرح 2014میں ترقی ،روزگار اور کرپشن سے پاک ہندوستان جیسے نعروں نے بی جے پی کی دنیا بدل دی لیکن جب غریبی کے بجائے غریب ہی’’ ہٹنے‘‘لگے تو کانگریس کے نعروں کوبھی کھوکھلا اور محض انتخابی وعدے قرار دیاجانے لگا اور نوبت بہ اینجا رسید کہ آج وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔اسی طرح اب جبکہ ا چھے دن کے بجائے کسان ،نوجوان،چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے اور نجی زمرے کے ملازمت پیشہ افراد کے لیے خراب دن آنا شروع ہو گئے تو آج بی جے پی کی بھی قلعی کھلنا شروع ہو گئی اور اس نے 2014کے غبارے کی ہوا نکلتی اور مودی عنصر کو ٹائیں ٹائیں فش ہوتا دیکھا تو فوراً ہی پینترا بدل کر رام مندر کو موضوع بنانا چاہا لیکن اس کی زیادہ پذیرائی نہ دیکھتے ہوئے اس نے اپنی ہی پارٹی سے نکل کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والے پنجاب کے وزیر اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ دوست نوجوت سنگھ سدھو کی عمران خان کی تقریب حلف برداری اور پھر سکھوں کی مقدس زیارت گاہ کرتار پورکے گودوارہ دربار صاحب کے لیے راہداری کی تقریب سنگ بنیاد میں شرکت کو اس طرح زور شور سے اٹھایا گویا یہ کوئی شخصٰ نہیںبلکہ قومی مسئلہ تھا۔ ایک حلقہ میں یہ سوال بھی کیا جانے لگا کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی اچانک اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے گئے تھے تو اس و قت کیا پاکستانی فوجی یا دہشت گرد پھول برسا رہے تھے لیکن اس وقت اسے وزیر اعظم کا ہمسایہ کا حق ادا کرنے اور تعلقات سدھارنے کی ایک کوشش سے تعبیر کیاگیا۔ اس وقت یہی ہندوستانی میڈیا خاص طور پر نجی ٹی وی چینل جو آج سدھو کے عمل کو ملک دشمن اور پاکستان نواز ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اس وقت وزیر اعظم کے اچانک پاکستان پہنچنے پر ان کے اس ا قدام کی تعریف میںزمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔غیر بی جے پی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر مسٹر مودی اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کر سکتے ہیں اور اپنی تقریب حلف برداری میں نواز شریف کو گلے لگا سکتے ہیں تو سدھو نے اگر عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کر لی یا پاکستانی فوجی سربراہ سے معانقہ کر لیا تو اس میں کیا برائی ہے۔لیکن بی جے پی بھی کیا کرے یہ تو اس کی مجبوری تھی کیونکہ سدھو نے ایک تو اسے دھوکا دیا اور پارٹی چھوڑ دی اور اس پر طرہ یہ کہ اپنی کوئی پارٹی تشکیل دینے یا کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے وہ دشمن جاں کے خیمہ میں جا بیٹھے۔اس لیے بی جے پی ان کے ہر عمل پر کڑی نگاہ رکھے گی اور جب حالات انتخابی موسم کے ہوں تو اس میں تو بی جے پی اسے بھنانے کی ہر ممکن کو شش کرے گی۔ بی جے پی اس بات کو نظر انداز کر گئی کہ کرتار پور راہداری کھلوانے کا سہراسدھو مہاراج کے سر بھی جاتا ہے۔ اس لیے ان کی عمران خان کی تقریب حلف برداری یا سنگ بنیاد تقریب میں شرکت پر انہیں ملک دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ سدھو کی ہی3ماہ سے جاری کوشش ہیں کہ انہوںنے دونوں ملکوں کے سکھ زائرین کا 400سو کلومیٹر کا فاصلہ 3 ماہ کی محنت سے 4 کلومیٹر کاکرادیا۔اس کے باوجود اگر بی جے پی کے کچھ عناصر انہیں غدار ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں تو پھر وہ حال ہی میں ٹی 10-کرکٹ لیگ کے عنوان سے شارجہ میں کھیلے گئے ٹورنامنٹ کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کئی ہندوستانی کھلاڑی نہ صرف کھیل رہے ہیں بلکہ ایک ہندوستانی کھلاڑی روبن سنگھ تو ایک ایسی ٹیم کے کوچ بھی ہیں جس میں پاکستانی فاسٹ بولر وہاب ریاض بھی ہیں۔ ملتان کے سلطان کا لقب پانے والے ہندوستانی سابق ٹیسٹ کرکٹروریندر سہواگ جس ٹیم کے کپتان ہیں اس کے کوچ سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم ہیں۔