Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر:ہم بکھر نے پر مجبور ہو گئے

آپ کون ہیں ؟؟؟ دیکھئے محترمہ میں ایک ہائی وے سے بات کررہا ہوں۔۔۔یہاں کچھ دیر پہلے بہت بڑا حادثہ ہواہے،کیا ۔۔۔!!! ثانیہ پوری قوت سے چیخ پڑی
ناہید طاہر  ۔ ریاض 
ہماری پرورش میں ، کہیں نہ کہیں کمی ضرور رہ گئی ہے جو ہماری اولاد اس قدر نافرمان ثابت ہوئی ہے۔انجانے میں ہی صحیح ہم سے کوئی گناہ سرزد توہوا ہے جس کا نتیجہ  زخموں کی سوغات لئے ہم تمام کی زندگیوں کو منتشر کررکھا ہے۔۔ ہم ذروں کی طرح بکھر نے پر مجبور ہو گئے۔۔۔!حمیدہ بیگم سسکیاں لیتی ہوئیں بڑے دکھ سے کہہ رہی تھیں۔اپنے ناکردہ گناہوں کے لئے ہم  اپنے رب سے بہت پشیمان ہیں۔۔۔!!!شوکت صاحب نے بھیگی آواز میں جیسے گناہوں کا اعتراف کیا۔
خدا کے لئے ایسا نہ کہیں آپ کی  تربیت میں کوئی کمی نہیں۔۔۔!!! اور نہ ہی رضا میں کسی قسم کی نافرمانی کے عناصر موجود ہیں۔۔ یہاں صرف رضا کی ضد اور انا کا مسئلہ ہے۔۔۔!!!جو انھیں  نافرمانی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
بیٹی اگر وہ بزرگوں کے فیصلوں کے خلاف تھا تو  احتجاج کرتا ہوا آواز  بلند کر سکتا تھالیکن اس نے خاموشی کی ردا  اوڑھ کر خوشی کا جو ظاہری ڈھونگ رچا، ہمیں  وقتی خوشیاں میسر کیں۔ اس کی یہ گھناؤنی حرکت نے ہم سے  ہماراسکون  چھین لیا ۔اس سے بہتر ہوتا کہ  وہ اپنی زبان کے تالے اسی وقت کھول دیتا تو آج ہمیں اسقدر دکھ  تو نہ ہوتااور ایسے حالات بگڑتے تونہیں ،جن کا سامنا کرتے ہوئے روح تک کانپ رہی ہے۔ اسے رضا کی نافرمانی نہیں تو اور کیاکہیں گے ؟دادو آج پہلی مرتبہ بڑی بے بسی محسوس کررہے تھے۔
ثانیہ بے چینی سے پہلو بدل کر چند ساعت بزرگوں کی جانب دیکھتی رہی پھر نہایت شائستگی سے گویا ہوئی
بات پھر رضا کی نافرمانی اور غیراخلاقی نقطہ نظر پر آکھڑی ہوئی ہے  میں یہاں ایک بات واضح کردوں کہ اگر وہ بدتمیز اور بد اخلاق  ہوتے تو بہت پہلے امریکہ پڑھائی کے دوران ہی اس بات کا ثبوت دے دیے ہوتے۔  ایک فرما نبردار اولاد کی طرح واپس لوٹ نہ آتے۔۔۔! امی اگر وہ نافرمان  ہوتے تو آپ بزرگوں کے فیصلے پر اتنی سعادت مندی کا اظہار نہ کرتے اور بیاہ کے  لئے  بھی تیار نہ ہوتے۔رضاکے بہت  اونچے کردار ہیں آپ بزرگوں کے سامنے  پردہ اٹھاتے ہوئے مجھے قطعی  شرم  محسوس نہیں ہو رہی کہ انہوں نے2 سال کے عرصے میں کبھی مجھے چھوا بھی نہیں۔۔۔جبکہ اپنا حق حاصل کرنے کے بعد بھی مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے تھے۔۔!!!مجھے اگر برداشت کیا ہے  تو صرف سعادت مندی کے احساس تلے۔۔۔ورنہ  وہ مجھے  کبھی کا چھوڑ چکے ہوتے۔
 ہمارے معاشرے میں  جبریً شادی کا رواج تو نہیں لیکن کہیں کہیں بزرگ  بیاہ کے معاملے میں اپنی  پسند اولاد پر  مسلط کردیتے ہیں جس کی وجہ  سے ا ولاد نہ چاہتے ہوئے بھی  لب کشائی کر نہیں پاتی لیکن زندگی بھر کے لئے ایک زخم بن کر  وجود کے اندر پیوست ہوکر رہ جاتی ہے اور یہی زخم دھیرے دھیرے ناسورکی شکل اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے اکثر شادیاں ناکامی کی گہری کھائی میں گر کر فنا ہوجاتی ہیں۔۔۔!!!
حمیدہ بیگم جھلاکر گویا ہوئیں مشرقی معاشرے کی اکثر شادیاں بزرگوں کی پسند کے مطابق ہوتی ہیں۔۔۔یہ شادیاں کامیابی کی ضامن بھی ہیں۔!!!نوجوان ضد اور غصے میں رضا کی طرح اپنی زندگیوں کوتباہ وبربادتو نہیں کرتے۔؟
امی۔۔۔!حالات کی کشتی بے قابو ہوچکی۔۔اسے طوفان اور بھنور نے جکڑ رکھاہے۔۔۔۔بہتر یہی ہوگا کہ ہم بھی اس کشتی کو  خدا کے بھروسے بہے  جانے دیں۔۔۔گر  وہ چاہا تو ان شاء اللہ کنارہ بخشے گا۔۔۔!!!!
میں نے رشتوں کے بندھن سے رضا کو آزاد کردیا ۔ آپ بھی اسے  فراخ دلی سے معاف کردیں اور دوسری شادی کی اجازت دیجئے پلیز۔ وہ اپنی خوشی سے جینا چاہتے ہیں انھیں اس کا حق بھی ہے۔۔۔جو ہم میں سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ تمہارا کیا ہوگا۔۔۔؟کبھی سوچا اس تعلق سے ؟؟؟دادو نے تڑپ کر پوچھا۔میرا کیا ہے۔۔۔جیسے جیتی رہی آگے بھی بس کٹ جائیگی۔۔۔ رضا تو کبھی  میرے تھے  ہی نہیں پھر کس بات کاافسوس۔۔!!!وہ نہایت  سرد لہجے میں کہتی ہوئی کرب سے مسکرااٹھی۔ 
والدین اور بزرگوں کی ایک اچھی بیٹی بن کر ساری زندگی آپ کے ممتا کی چھاؤں  میں گزارنا چاہتی ہوں۔
ثانیہ میری بچی۔۔۔!حمیدہ بیگم ثانیہ کی جانب بڑھیں  اور اسے اپنے سینے سے بھینچ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ تم ساس کو سمجھاؤ کہ میں کوئی گناہ نہیں کررہا ہوں۔۔۔۔وہ رات سِگریٹ کا دھواں خواب گاہ میں پھیلاتا بے بسی سے چیخا۔۔۔وہ خواب گاہ میں کبھی سِگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا۔۔۔ثانیہ کا دم اس دھواں اور ماحول سے بری طرح گھٹ رہا تھا۔ رضا وہ آپ کے والدین ہیں۔۔۔پلیز تمیز کے  دائرے میں بات کریں۔میری خوشی کے دشمن بن رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ دوبارہ جھلایا۔
یار شادی طے ہوچکی۔۔۔۔بچوں کا کھیل تو نہیں۔۔۔۔دوستوں میں ایک حیثیت  ہے۔۔۔۔۔یہ لوگ سمجھتے نہیں۔۔۔۔۔!!!
میں شادی کی اجازت  دے چکی۔ آخر کیا غم ستا رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟راحیلہ چاہتی ہے میں اس شادی سے پہلے تمھیں طلاق دوں۔بالکل نیا انکشاف تھا جس نے ثانیہ کے پورے وجود  کو لرزا دیا۔
 دادو تمھیں بزنس پارٹنر بنارکھے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ثانیہ کاوجود چکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ لہرا کر صوفے 
پر گر سی گئی۔آپ اطمینان رکھیں۔۔۔۔۔مجھے آپ کی ذات۔۔۔ آپ کی جائداد اور کاروبارمیں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ کبھی تھی۔لہجہ بہت زیادہ سرد تھا  وہ دوبارہ کہہ اٹھی۔
میں آپ کی زندگی سے کہیں دور چلی جاؤں گی۔ہوسکاتودادو امی ابو کو بھی اپنے ساتھ رکھوں گی۔
رضا اس لڑکی کو کئی پل دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ میں نے کل کی ٹکٹ بک کرلی ہے۔
اتنی جلدی ٹکٹ بک کروالی؟ہاں اگلے ہفتے شادی طے پائی۔۔۔۔وہ سگریٹ کے کش لیتا ہواپیشانی مسلنے لگا۔اب آپ آرام سے سو جائیے۔۔۔صبح میں دادو سے  دوبارہ بات کر وں گی۔۔ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔لیکن صبح بات کرنے کی نوبت بھی نہیں آئی شوکت صاحب غصے میں  بیوی اور اپنے ابو کو لے کر  گاؤں واپس جانے کی تیاری کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   رات ہمیشہ کی طرح اپنے دامن میں اداسیاں سمیٹ لائی تھی۔۔۔زندگی کا ہر زخم ایک امید کا دیا  روشن کرتا ہوا زخموں کا  مرہم ثابت ہورہا تھا لیکن اچانک ہی سارے زخم نا سور کی شکل اختیار کر گئے۔۔ ثانیہ کی انا اس قدر مجروح ہوچکی تھی کہ سینے میں سانسیں  گھٹ رہی تھیں، آنکھیںخشک ہوچکی تھیں۔۔۔۔۔وہ کھل کر رونا چاہتی تھی لیکن آنسو بے حسی کی چادر تانے ہوئے  کہیں  دور جا کھڑے تھے۔۔۔۔
زندگی عجیب پہلی ہے۔۔۔۔۔۔! ہنسائی تو کبھی نہیں ہاں رولائی بہت زیادہ۔۔۔۔۔!!!وہ سونا چاہتی تھی لیکن آنکھوں سے نیند غائب  تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا ماحول عجیب گھٹن آمیز ہوگیا تھا۔ابو آپ لوگ اس طرح حالات سے کنارہ کشی اختیار   کئے  اگر گاؤں واپس لوٹ جائیں گے تو  کیا حالات کے زخم مندمل ہو جائیں گے؟ یوں مسئلہ کا حل  تو نہ ہوگا۔۔۔؟ اس طرح کا فرار ،میری نظر میں  سراب کے پیچھے دوڑنے والی خود فریبی کہلائے گی۔۔۔۔۔!!!آپ نے ایک بار بھی میرے تئیں  نہیں سوچا کہ اب  میرا کیا ہوگا؟
دادو نیبے اختیار ثانیہ کو دیکھا اور لپک کر  اسے اپنیگلے سے لگا لیا۔تم اپنے میکے چلی جانا۔
بہت خوب حل نکالا آپ نے؟؟؟کتنی آسانی سے کہہ دیا۔۔۔۔ثانیہ دکھ سے مسکرائی۔وہ نہایت مضبوط لہجے میں گویا ہوئی۔میں کہیں نہیں جارہی ہوں۔۔۔۔۔!بیٹی  ! مجھے تم سے یہی امید تھی حمیدہ بیگم بے اختیار رونے لگیں۔امی اس طرح ٹوٹ کر بکھر جانا بزدلی کہلائیگی۔۔۔۔!
ہم بزدل ہیں۔۔۔۔! شوکت صاحب نظریں چراتے ہوئے بولے تو ثانیہ تڑپ اٹھی۔
ابو !یہ آپ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟ہاں۔۔۔! استانی ہمیں واپس جانے دو۔۔۔۔۔بچوں کی مرضی کے خلاف شادی کرنا ہم بزرگوں کا کوئی حق نہیں تھا۔۔۔ہم سے شدید غلطی ہوگئی۔۔۔۔ہوسکا تو ہمیں معاف کردینا۔۔۔۔۔رضا ہمارا مان تھا۔۔۔ہمارا غرور تھا۔۔۔۔سب ٹوٹ کر تنکوں کی مانند بکھر گیا۔۔۔۔!دادو آپ  بزرگوں کے فیصلے مقدس ہوتے ہیں۔ان میں اللہ پاک نے خیر رکھی ہے۔!!!
 کوئی ان کی قدر کرے   تب ناں۔۔۔؟حمیدہ بیگم دکھ سے بولیں۔
امی یہ وقت بیتی باتوں کی قبروں کو کھرچنے کے برابر ہے۔۔ وقت کا تقاضا صدا لگارہا ہے کہ مشکلات سے فرار نہیں بلکہ  ڈٹے رہنے میں فتح ہے۔!!!
 آپ لوگ رک جائیں۔۔۔۔۔!!!ثانیہ کا گلا بری طرح  بھیگ گیا آنکھیں آنسوؤں سے  ترتھیں۔
پتہ نہیں ان بزرگوں کی کیا ضد تھی  وہ لوگ رضا سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے گاؤں واپس چلے گئے۔
(باقی آئندہ ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: