محصور پاکستانیوں کی آخری اُمید
16 دسمبر ہرسال آتا ہے اور خاموشی سے گزرجاتا ہے۔ ہماری نئی نوجوان نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ 16دسمبر کی تاریخ کیا ہے۔ماضی کے دریچے میں جھانکنے کی ہمیں فرصت ہی نہیں نہ ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے کیا کھویا تھا ۔ہم بھول چکے ہیں۔16دسمبر 1971کو آج سے 47سال پہلے ہم نے آدھا بڑا پاکستان جس کو مشرقی پاکستان کہتے تھے ہند سے جنگ میں کھو دیا تھا جس کو آج بنگلہ دیش کہتے ہیں یہ سانحہ جنرل یحییٰ خان کی ہٹ دھرمی اور ذوالفقار بھٹو کی سیاسی سوچ کی وجہ سے پیش آیاجس نے اس ملک کے 2ٹکڑے کردیئے ۔بعد میں ہم اپنے 90ہزار فوجی ہند کی قید سے تو چھڑالائے مگر 5لاکھ شہری جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا تھا (مشرقی پاکستان میں بسنے والے ہر غیر بنگالی کو بہاری کہا جاتا تھا)اُن کو لاوارث چھوڑ آئے جن کو بنگلہ دیش کے مکتی باہنی غنڈوں نے گھروں سے نکال کر ان کا تمام سامان لوٹ کر بے گھر کردیا اور وہ کیمپوں میں محصور ہوگئے ۔بعد میں آدھے لوگ گرتے پڑتے ہندوستانی سرحدوں سے نکل کر نیپال سے لٹتے پٹتے کسی طرح پاکستان پہنچ گئے اور اورنگی میں آباد ہوگئے ۔بقایا ڈھائی لاکھ بچے کھچے افراد جن میںعورتیں ،بچے ،بوڑھے ،جوان 47سال سے دردناک حالت میں زندگی کاٹ رہے ہیں ۔انہوں نے آج تک پاکستان سے وابستگی ختم نہیں کی ۔ہزاروں بوڑھے اور بیمار تو اسی حالت میں انتقال کرچکے ہیں اور پاکستان جانے کی حسرت دل میں لئے بے کسی کی موت کی آغوش میں چلے گئے۔ نہ پی پی پی کی پہلی حکومت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کو پاکستان لانے کی کوشش کی اور نہ جنرل ضیاء الحق نے 11سال اقتدار میں رہ کر اُن کو لانے کے لئے کوئی کام کیا ۔البتہ 40لاکھ افغانیوں کو پاکستان میں بسا دیا ۔
ضیاء الحق کے جانے کے بعد ایک کمیٹی ان محصورین کو لانے کے لئے بنی جس میں پاکستان کی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے عمائدین شامل تھے ۔اُس وقت کے وزیراعلی پنجاب نوازشریف سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعلی پنجاب ہیں اور محصورین کو لانا مرکزی حکومت کا کام ہے ۔البتہ ایک لاکھ کپڑوں کے جوڑے ان محصورین کی مدد کے طور پر عطیہ کیے اوروعدہ کیا کہ اگر ان کی حکومت مرکز میں بنی تو وہ بقایا محصورین کو پاکستان لاکر پنجاب میں آباد کریں گے ۔صرف ڈھائی سال بعد مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن کو حکومت مل گئی اور نواز شریف وزیراعظم پاکستان بن گئے ۔اراکین کمیٹی نے ان سے ملاقات کرکے اُن کو وعدہ یاددلایا تو نوازشریف صاحب نے اُس وقت کے وزیراعلی پنجاب غلام حیدر وائیں کو حکم دیا۔پہلے ایک جہاز بھر کر اُن کو لایا جائے اور میاں چنوں میں آباد کرکے بقایا لوگوں کوبھی لاکرکے ایک ایک اضلاع میں آباد کردیا جائے ۔پہلاجہاز جس میں تقریباً ساڑھے تین سو افراد لائے گئے۔ان کو میاں چنوں میں آباد کردیا گیا ۔ان کو چند ایکڑ زمینیں بھی دی گئیں وہ ابھی تک آباد ہیں ۔بعد میں نہ جانے کیا سیاسی حکمت آڑے آئی اور میاں نوازشریف اپنے وعدے سے مکر گئے ۔باربار یقین دھانی اور یاد دہانی کے باوجود ان کو نہیں لائے ۔قدرت نے صرف 3 سال میں ہی اُن کی حکومت ختم کرکے اقتدار پھر پی پی پی کو دلوادیا ۔اس طرح 2ڈھائی لاکھ مجبور ،لاچار محصورین بنگلہ دیش آج بھی لاوارث کیمپوں میں پاکستان جانے کی حسر ت لیے ہوئے ہیں ۔
ان 47سال میں ہم نے لاکھوں افغانیوں کے علاوہ برما ،بنگلہ دیشی ،بنگالیوں کو تو لاکر آباد کردیا ہے مگر افسوس خود اپنے پاکستانی بھائیوں کو بنگلہ دیش میں چھوڑ کر بھول گئے ہیںجنہیں گرمی، سردی،بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنی پڑتی ہے۔آئے دن اُن کے کیمپوں پر بنگلہ دیشی غنڈے حملہ کرتے رہتے ہیں اُن کی جوان لڑکیوں کو اُٹھاکر لے جاتے ہیں، اُن کے کیمپوں کوآگ بھی لگاتے رہتے ہیں کیونکہ کیمپوں کی زمینیں بہت قیمتی ہوچکی ہیں ۔ان سے خالی کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بھٹو کے دُور میں ایک ملین بنگالی غیر قانونی طورپربہ سلسلہ روزگار پاکستان آئے اور یہ آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا ،لیکن بہاری جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتے تھے وہ پاکستان نہ آسکے کیونکہ وہ غریب لوگ تھے ۔مشرف کے دُور میں ایک ملین افغان مہاجرین پاکستان آئے مگر کبھی بھی اُن بنگلہ دیشی پاکستانیوں کاخیال نہیں کیا گیا۔ہم شام ،برما کے مسلما نوں کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے ہیں مگر ان کے لیے نہیں۔
اب موجود ہ حکومت ان بنگالیوں ،افغانیوں کو شہریت دے رہی ہے تو خدارا ان حقیقی پاکستانیوں کو بنگلہ دیش سے لاکر دوبارہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں آباد کرکے اپنا قومی فریضہ پوراکریں ۔دنیا میں ہر ملک اپنے ایک ایک باشند ے کے لئے تیار رہتا ہے مگر ہماری غیرت 47سال سے سوئی ہوئی ہے جو اپنے حقیقی باشندوں کو غیر ملک میں لاوارث سمجھ کر بھول رہے ہیں۔ ہمارا بنگلہ دیش میں سفارتخانہ آج تک ان محصورین کے لئے کچھ نہیں کرسکا اور آج بھی ہزاروں غیر ملکی باشندے غیر قانونی طورپر ہند، افغانستان، ایران، نیپال کے راستے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں مگر ہم حقیقی پاکستانیوں کے درد سے ناآشنا ہوچکے ہیں ۔16دسمبرپھر آرہا ہے اور اُسی طرح گزر جائے گا ۔تو محصورین پھر اگلے سال کی اُمید اور آس میں گزار لیںگے، اب تو وہ بھی نا اُمید ہوچکے ہیں ۔ آخر میں چیف جسٹس ثاقب نثار سے درد مندانہ اپیل کرتاہوں کہ اس قومی مسئلہ پر سوموٹو ایکشن لے کر ان مظلوم محصورین پاکستانیوں کو پاکستان لانے کا حکم دیں جس طرح انہوں نے گمشدہ افراد کے لئے ایکشن لیا تھا اور ان 2ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کی دعائیں لیں ۔