معاف کرنے سے بندے کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ عزت ہی عطا فرماتا ہے، جو شخص اللہ کو راضی کرنے کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے رفعت اور سربلندی ہی عطا فرماتا ہے۔
عبد المالک مجاہد۔ ریاض
دین اسلام خوبیوں کا مرقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ماننے والے بھی بے پناہ خوبیوں اور صفات سے مزین ہو جاتے ہیں۔ ان اعلیٰ اور پسندیدہ صفات میں ایک بڑی خوبی کسی شخص کا متواضع ہونا بھی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ متواضع انسان سے ہر کوئی محبت کرتا ہے ۔ اس کے برعکس متکبر شخص معاشرے میں برا اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ عموما ہم اپنی گفتگو میں کسی شخص کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: دیکھیں جی! فلاں شخص تو بہت تواضع کے ساتھ پیش آتاہے۔ چلیں جی! اس شخص سے ضرور ملنا چاہیے کیونکہ وہ بڑا منکسر المزاج واقع ہواہے۔ اللہ کے رسولنے اپنی امت کو جو رہنما اصو ل عطا فرمائے ہیں‘ ان میں ایک اہم اصول تواضع بھی ہے۔ اگر میںیہ کہوں کہ خود اللہ کے رسول بھی بہت ہی متواضع تھے تو ا س میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔آئیے آپ کی تواضع کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں: عدی بن حاتم طائی بڑے سخی باپ کا بیٹا اور قبیلہ بنو طے کا سردار تھا۔
وہ عیسائی مذہب کا پیروکار تھا۔ سعودی عرب کے شمالی علاقے حائل میں ان کی جاگیریں تھیں۔ عدی اسلام کا شدید دشمن تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں اللہ کے رسولکے بارے میں عجیب وغریب شکوک وشبہات جمع کر رکھے تھے۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اس کی بہن سفَّانہ نے اسے اللہ کے رسول کے پاس مدینہ بھجوا دیا ۔ جب وہ مدینہ پہنچا تو اس کی ہیئت کذائی یہ تھی کہ ریشمی لباس پہنا ہوا، گلے میں سونے کی صلیب لٹکائی ہوئی ،بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ چلتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ ادھر اللہ کے رسول کی تواضع کو دیکھیں کہ آپ ساتھیوں کے ہمراہ مسجد نبوی کے کچے صحن ہی میں تشریف فرما تھے۔ مسجد نبوی اس زمانے میں کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی۔عدی بن حاتم کے تصور میں یہ تھا کہ اس نبی نے نجانے کتنا مال ودولت جمع کر رکھا ہوگا۔ کتنے بڑے بڑے محلات اورقلعے تعمیر کر رکھے ہو ں گے۔ اپنی مسجد کو نجانے کس قدر خوبصورت فن تعمیر کا نمونہ بنا رکھا ہوگا مگر جب وہ مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دریائے حیرت میں غوطے کھانے لگا، اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
یہاں ہٹو بچو کی کوئی صدا تھی نہ حکمرانوں جیسا کوئی طرز زندگی تھا۔اللہ کے رسولنے نہایت سادہ لباس پہن رکھا تھا۔ہاں یہ ضرور تھا کہ صحابہ کرامؓ نے آپ کو اس طرح اپنے حصار میں لیا ہوا تھا جس طرح چاند ستار وں کے جلو میں ہوتا ہے ۔ عدی نے گفتگو شروع کی۔ کچھ سوالات، کچھ خدشات، کچھ باتیں ذہن میں تھیں۔ ماحول کو دیکھا، اللہ کے رسول کے چہرہ اقدس کو دیکھا، ذہن بدلنے لگا۔ دل میں خیال آیا مسجد تو بڑی سادہ سی ہے مگر گھر نجانے کتنا عالی شان ہوگا۔یہ نبی جو ریاست مدینہ کے حکمران بھی ہیں، نہ معلوم اس نے اپنے گھر کو کس قدر مزین کر رکھا ہوگا۔ اس میں کتنا سونا چاندی جمع کررکھا ہوگا۔اس کی مسند، اس کے درو دیوار کتنے خوبصورت اوردل کش ہوں گے۔ عدی یہ سوچ ہی رہے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
عدی ! چلو، باقی باتیں گھر چل کے کرتے ہیں۔ آپ نے عدی کا ہاتھ پکڑا۔ مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک دیوانی سی، نیم پاگل عورت راستہ میں کھڑی ہے۔ اللہ کے رسولسے عرض کر رہی ہے: مجھے بعض کاموں میں آپ کی مدد درکار ہے، ذرا الگ ہو کر اطمینان سے میری بات سنیے۔ اللہ کے پیارے رسول نے عدی سے فرمایا: ذرا رکو!پھر اس عورت کی باتیں سننے لگے۔اس کے کچھ مسائل تھے، کچھ پریشانیاں تھیں۔ آپ خاصی دیر تک ایک کونے میں کھڑے ہو کر اس پگلی عورت کی باتیں سنتے رہے۔ عدی آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اپنے آپ سے کہنے لگا: ارے! ان کے اندر بادشاہوں والی تو کوئی بات نہیں۔ یہ تو بے حد متواضع شخصیت ہیں۔ آپ اس عورت کے مسائل حل فرما چکے تو عدی کو گھر چلنے کے لیے اشارہ کیا ۔آپ کا گھر بھی مسجد کے ساتھ ہی ملا ہوا تھا۔ یہ گھر بھی کیا تھے ؟ کچی مٹی کے نہایت سادہ حجرے تھے۔ اس کچے گھر میں داخل ہوئے۔ حتی کہ وہاں بیٹھنے کے لیے کوئی خاص جگہ بھی نہیں تھی۔ عدی سوچ رہا ہے کہ اب مجھے کہاں بٹھائیں گے اور خود کہاں بیٹھیں گے؟یہا ں کوئی نشست تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ عدی دیکھ رہا ہے، اللہ کے رسول نے اپنی مبارک چادر کو کندھے سے اتارا، اسے زمین پر بچھایا۔
عدی سوچ رہا ہے کہ اب خود تو چادر پر بیٹھ جائیں گے اور مجھے زمین پر بیٹھنے کو کہیں گے مگر وہ ہکا بکا رہ گیا جب اللہ کے رسول نے عدی کو اشارہ کیا کہ تم اس چادر پر بیٹھ جاؤ۔ عدی نے کہا: چادر پر میں بیٹھ جاؤں تو پھر آپ کہاں بیٹھیں گے؟ آپ نے کچے فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عدی! میرا کیا ہے میں تو کچے فرش پر ہی بیٹھ جاؤںگا۔ عدی کا دل پسیج چکا ہے۔ خیالات بدل چکے ہیں۔ یہ نبی تو واقعی بڑے کریم اور بہت حوصلے والے ہیں۔ یہ تو نہایت متواضع ہیں۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: عدی! وہ تمہارے کچھ سوالات تھے، کچھ اشکالات تھے، پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ مگر اب سوال وجواب کی ضرورت نہیںرہی تھی۔عدی کے ذہن سے تمام اندھیرے چھٹ چکے ہیں۔ عقیدہ توحید کا نور جگمگا اٹھا ہے۔ اب ایک ہی درخواست ہے کہ مجھے کلمہ پڑھائیں اور اپنے جاں نثاروں میں شامل کرلیں۔ اللہ کے رسول کا اخلاق، آپ کی تواضع بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں کو دین کے قریب لا رہی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوا: {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِینَ} ’’ ایمان والوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہوا: {وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ} ’’ جو آپ کا اتباع کرنے والے مؤمنین ہیں‘ ان کے ساتھ تواضع سے پیش آیا کیجیے۔‘‘ اللہ کے رسول نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت اس انداز میں فرمائی کہ انہیں اخلاق کی اعلیٰ منازل تک پہنچادیا۔ آئیے ایک خوبصورت حدیث پڑھتے ہیں: ارشاد نبوی ہے: صدقہ کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ مزید ارشاد فرمایا:
معاف کرنے سے بندے کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ عزت ہی عطا فرماتا ہے، جو شخص اللہ کو راضی کرنے کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے رفعت اور سربلندی ہی عطا فرماتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ کی موجودگی میں مدینہ شریف کا ماحول ایسا تھا کہ’’ مدینہ طیبہ کی کوئی عام سی لونڈی اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ مدینہ کی کسی گلی یا محلہ میں جہاں چاہتی لے جاتی تاکہ آپ اس کی مدد فرما سکیں۔‘‘ ذرا غور کیجیے! آپ اشرف الخلق ہونے کے باوجود ایک عام سی لونڈی کے ہمراہ اس کی مدد کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ آپ یہ بھی نہ پوچھتے کہ کہاں جانا ہے؟ یا مجھے کہاںلے جا نا چاہتی ہو؟ بلکہ آپ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ بغیر کوئی سوال وتفتیش کیے اس کے ہمراہ تشریف لے جاتے تاکہ اس کی مشکل دور کر سکیں۔اللہ کے رسول کے لیے بہت آسان سی بات تھی کہ آپ کسی صحابی کو حکم دیتے کہ جاؤ ذرا دیکھو یہ لونڈی کیا چاہتی ہے؟ یا تم اس کے ساتھ جاؤ اور اس کی مدد کرکے واپس آجاؤ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! یہ تھا آپ کا اعلیٰ اخلاق اور یہ تھی آپ کی تواضع کہ وہ عام سی لونڈی جس کا بظاہر معاشرے میں کوئی مقام ومرتبہ نہ تھا،اس کی بھی دلجوئی فرماتے۔ یہ آپ کی تواضع تھی کہ آپ معاشرے کے ان کمزور طبقات کے ساتھ حسن سلوک فرماتے جن کوکوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔آپ ایسے بے آسرا لوگوں کے ساتھ بلا تردد چل پڑتے اور ان کے کاموں میں ان کی مدد فرماتے۔ سیدنا ابو بکرؓ خلیفہ رسول کے مرتبہ پر فائز ہیں مگر آپؓ کی تواضع اور فروتنی دیکھئے کہ مدینہ کے اطراف میں ایک بوڑھی خاتون رہتی تھی۔
آپؓ صبح سویرے ا س کے گھر تشریف لے جاتے، گھر کی صفائی کر دیتے، پانی بھر دیتے اور روزمرہ کی دیگر ضروریات فراہم کر کے اپنی ذمہ داریوں پر واپس آجاتے ۔ قارئین کرام! آج کے دور میں کیا ذمہ داران حکومت ا س قسم کا کام کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ مگر ہمارے سلف صالحین کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی رعیت کے ان افراد کی مدد کے لیے بنفس نفیس تشریف لے جاتے، ان کی ضروریات زندگی کو اپنے ہاتھوں پورا کرتے جنہیں معاشرے میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا حالانکہ وہ کسی ماتحت کو بھی اس کام کے لیے بھجوا سکتے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی زندگی سے ایک اور مثال پڑھ کر ہم ذرا آگے بڑھیں گے۔ اللہ کے رسول نے اپنی حیاۃ طیبہ کے آخری ایام میں اسامہ بن زیدؓ کو حکم دیا کہ وہ ایک لشکر لے کر مؤتہ کے مقام پر جائیں۔ یہ رومیوں کا علاقہ تھا۔ یہاں اسامہ کے والد زید بن حارثہؓ کو شہید کیا گیا تھا۔ آج کل یہ علاقہ اردن میں ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نو عمر تھے مگر آپ نے اس لشکر کا جسے تاریخ جیش اسامہ کے نام سے یاد کرتی ہے، حضرت اسامہ بن زیدؓ کو کمانڈر انچیف مقرر فرمایا تھا۔اسی اثناء میں اللہ کے رسول بیمار ہو جاتے ہیں۔
سیدنا اسامہ کی والدہ ام ایمن نے اللہ کے رسول کے چہرہ اقدس کو دیکھا تو اسامہ سے کہنے لگیں: میں بنو ہاشم کی پرانی خدمت گار چلی آرہی ہوں۔ اللہ کے رسول پر بیماری کے اثرات اچھے نظر نہیں آرہے۔ تم لوگ کچھ عرصہ کے لیے رک جاؤ کیونکہ آپ کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ پھر واقعی ایسا ہوا کہ آپ اسی بیماری میں اللہ کے پاس چلے گئے۔سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالی تو سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ لشکر اسامہ کو مؤتہ کے لیے روانہ کر دیا جائے۔سیدنا اسامہؓ اپنے لشکر کے ساتھ جرف کے مقام پر رکے ہوئے ہیں۔ خلیفہ اول لشکر کو الوداع کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ سیدنا اسامہؓ گھوڑے پر سوار ہیں۔سیدنا ابو بکر صدیقؓ تشریف لائے تو گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
مکمل مضمون روشنی30دسمبر 2016کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں