بچوں کو ٹی وی کی تباہ کاریوں سے کیسے بچائیں؟
بچے اللہ تعالیٰ کی انمول نعمت ہیں۔ بچے تمناؤں کا مرکز، آنکھوں کی ٹھنڈک، مستقبل کے معمار، معصومیّت کا پیکر، بے گناہی کا نمونہ اور سادگی کا مجسمہ ہوتے تھے لیکن آج کل ہمارے ننھے منے پھول سیٹلائٹ چینلز کے پروگراموں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ برائی کے علمبر دار برائی اور اچھائی کے نام لیوا اچھائی پھیلا رہے ہیں۔ سیٹلائٹ چینلز اچھائی اور برائی کے خانوں میں منقسم ہیں۔ ان کی یلغار سے بچاؤ کا واحد ہتھیار مضبوط خودکار دفاعی نظام کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بچوں پر انکے اثرات کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ بڑے بھیانک ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق عرب ممالک میں سیٹلائٹ چینلز کی تعدادکئی سو سے تجاوزکرچکی ہے۔ ان کے پروگرام نشر کرنے والے عرب اداروں کی تعداد116 ہو چکی ہے۔ ان میں سے 24 سرکاری اور92 نجی ہیں۔ بعض جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ ایک عرب ملک میں بچوں کیلئے تیار کئے جانے والے پروگراموں کا تناسب49 سے55 فیصد کے درمیان ہے جبکہ در آمد کئے جانے والے پروگراموں کا تناسب 45 تا51 فیصد کے قریب ہے۔
سیٹلائٹ چینلز کے پروگرام مسلم ممالک میں رائج عادات و روایات پر کس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب رائے عامہ کے ایک جائزے میں کچھ اس طرح سے سامنے آیا ہے کہ 45 فیصد ناظرین نے کہا ہے کہ بچوں پر ان کے برے اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ44 فیصد نے اپنی رائے محفوظ رکھی ہے ۔ بچوں کے بارے میں سامنے آیا ہے کہ وہ 7 گھنٹے یومیہ ٹی وی کے سامنے گزار رہے ہیں۔ کارٹون فلمیں پابندی سے دیکھ رہے ہیں۔ گویا ہفتے میں49گھنٹے، مہینے میں1470 اور سال میں7640 گھنٹے ٹی وی کے سامنے دھرنا دئیے رہتے ہیں۔
مصری میڈیا کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ قاہرہ شہر کے بچے ہفتے میں28 گھنٹے ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ سماجی و نفسیاتی علوم کے ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ بچوں کو ایک دن میں35منٹ سے زیادہ ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیا جائے۔ ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 98 فیصد بچے روزانہ ٹی وی اشتہارات پابندی سے دیکھتے ہیں۔ اسکالرز نے خبردار کیا ہے کہ74 فیصد کارٹون فلمیں بچوں میں مجرمانہ کردار پیدا کر رہی ہیں۔
ایک جائزے میں ظاہر کیا گیا ہے کہ سعودی یونیورسٹی کے طلبہ سال میں ایک ہزار گھنٹے ٹی وی کو اور600 گھنٹے یونیورسٹی کو دے رہے ہیں ۔ بعض جائزوں میں توجہ دلائی گئی ہے کہ لڑکیاں سیٹلائٹ دیکھنے کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ ان کے کردار میں تبدیلی آرہی ہے۔ وہ ہر وقت سیٹلائٹ چینل سے پیش کئے جانے والے پروگراموں کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں، اخلاقی بگاڑ اور فکری بے چینی سے دو چار ہیں۔500 طویل فلموں کے جائزے سے پتا چلا ہے کہ 72 فیصد محبت، دہشت اور جنسی موضوعات سے متعلق تھیں۔ جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ33فیصد لڑکیاں لیکچر میں حاضری پر فلم بینی کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ایک جائزے میں واضح کیا گیا ہے کہ بچوں کی صحت پر سیٹلائٹ چینلز دیکھنے کی وجہ سے برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ 64فیصد ضعفِ بصارت میں مبتلا پائے گئے جبکہ 44فیصد کی جسمانی حرکت تعطل کا شکار ہوگئی۔
اطفال اور ترقی کی عرب کونسل کے ڈاکٹر عبد المنعم نے ایک جائزے میں بتایا کہ سیٹلائٹ چینلز کے پروگراموں نے بچوں کی معصومیت ختم کردی ہے۔ مغربی دنیا سے بر آمد کئے جانے والے پروگرام بچوں میں تشدد، جارحیت اور جرائم سے انسیت پیدا کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ٹی وی پروگرام امریکہ سے لائے جا رہے ہیں۔ ان میں تشدد کی شرح 99.9 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران میں مغربی دنیا سے درآمد کئے جانے والے بچوں کے پروگراموں کے جائزے سے پتا چلا کہ ان میں 300سے زیادہ قتل کی وارداتیں دکھائی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں ایسے اشتہارات بھی دئیے گئے تھے جن میں والدین کو پُرتشدد مناظر پر مشتمل ویڈیو کیسٹس خریدنے کی دعوت دی گئی ہے۔
جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کے پروگراموں میں 49 فیصد دشنام طرازی و گالی گلوچ،23 فیصد انتقام کی دھمکی،14 فیصد اشتعال انگیزی، 12فیصد مضحکہ خیزی، 3 فیصد الزام تراشی،25 فیصد ہاتھوں سے زد و کوب کرنے، 20 فیصد دوسروں پر اشیاء پھینکنے،18 فیصد ہاتھ پیر باندھنے، 9 فیصد اغوا،7 فیصد رہزنی اور3فیصد قید کے مناظر پیش کئے جا رہے ہیں۔ ان پروگراموں کی وجہ سے بچے رات کے وقت ڈر رہے ہیں۔ خواب میں خوفناک مناظر سے بچے سوتے میں اچھل جاتے ہیں۔ ہوم ورک اچھی طرح سے نہیں کر پاتے۔ بچے معاشرے کی خوفناک تصویر اپنے ذہنوں میں مرتسم کرلیتے ہیں۔
تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ بچے کم سنی میں اخلاقیات کو نہیں دیکھتے، جو نظر آتا ہے، وہ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ سیٹلائٹ چینلز کے پروگرام دیکھنے والے بچے قبل از وقت بالغ ہوجاتے ہیں۔ سنسر کے بغیر دکھائی جانے والی فلمیں سماجی مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ جرائم والے مناظر دیکھنے سے بچے مجرم بن رہے ہیں۔ فلموں میں خاندانی جھگڑے، دوسروں کو نیچا دکھانے اور کسی بھی قیمت پر جیتنے والے مناظر منفی اثرات ہی ڈال رہے ہیں۔ شعبدہ بازی، جادوگری، افسانوی قسم کی سوچ، پیشگوئی اور روح کو حاضر کرنے پر یقین کا درس ٹی وی پروگراموں کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔ خود پسندی اور سماج دشمن جرائم سے لگاؤ سکھلایا جارہا ہے۔ جرائم پہلے تو کچھ محدود تھے لیکن سیٹلائٹ چینلز کے آجانے کے بعد اُن میں اضافہ ہوا ہے۔
اب آئیے اس سلسلے میں بعض اہلِ علم اور ماہرینِ تربیت کے اقوال کا بھی مطالعہ کر لیں:
٭احمد القاضی (سعودی رکنِ شوریٰ):
میرا خواب تھا کہ سیٹلائٹ چینلز قائم ہوں تاکہ مرد، خواتین، نوجوان اور بچوں کو صحیح شعور و آگہی فراہم کریں لیکن افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑ رہا ہے کہ سیٹلائٹ چینلز کے زیادہ تر پروگرام فحش مناظر، مخربِ اخلاق سرگرمیوں اور عریاں حرکتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے اور نوجوان ان سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
٭ڈاکٹر خالد الدخیل (سماجی علوم کے پروفیسر اور معروف مصنف):
گیند حکومتوں کی فیلڈ میں ہے۔ ہماری حکومتیں دینی یا سیاسی اسباب کی وجہ سے مختلف پروگراموں پر تو پابندیاں عائد کر دیتی ہیں لیکن بچوں کو جرائم اور انحطاط سکھانے والے پروگراموں پر روک کیوں نہیں لگاتیں؟
٭خالد سعید زربان (ماہرِ سماجی علوم):
بچے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ کمسنی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ والدین، ہم عصروں اور ٹی وی پروگراموں کی نقالی کرتے ہیں ۔ انکے ذہن پر تشدد کے مناظر بھیانک اثرات ڈال رہے ہیں۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ بچوں کو ایسے پروگرام دیکھنے سے روکیں۔
٭فہد احمد مصلح (ماہرِ تربیت):
مسلم معاشروں میں تشدد کا رواج کبھی نہیں رہا۔ سیٹلائٹ چینلز ہی نئے مسلم معاشروں میں اس رواج کیلئے جواب دہ ہیں۔
٭خالد احمد السلیمان (معروف قلم کار):
عصرِ حاضر میں سیٹلائٹ پروگراموں کی دنیا خونخوار جنگل کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ درندہ صفت اور وحشیانہ یا گراوٹ والے پروگرام اس دنیا پر حاوی ہیں اور ناظرین خصوصاً بچوں کے معصوم ذہن شکار بنے ہوئے ہیں۔ یہ پروگرام جنس زدہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عصرِ حاضر کے فن اور میڈیا کا واحد پیغام جنسی ترغیب کے سوا کچھ نہیں رہا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس معرکے میں والدین تن تنہا تمام حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیٹلائٹ چینلز کے پروگرام کسی رکاوٹ کے بغیر ہمارے گھروں پر یلغار کر رہے ہیں۔
٭ڈاکٹر محمد انس قاضی (ام القریٰ یونیورسٹی میں انسانی علوم کے پروفیسر):
سیٹلائٹ چینلز کے پروگرام سماجی نا انصافی، تشدد اور جارحانہ سلوک کا پرچا کر رہے ہیں، والدین کو2 کام کرنے ہیں:
پہلا تو یہ کہ وہ خود حقائق سے آراستہ ہوں۔
دوسرا یہ کہ بچوں کے ساتھ عصری انداز میں پیش آئیں۔ ان سے ان کی عمر کے مطابق مکالمہ (ڈائیلاگ) کریں۔
٭ڈاکٹر محمد ایمن عرقوسی (الامل ہسپتال جدہ میں ذہنی امراض کے کنسلٹنٹ):
جس کا بھی بچے سے تعلق ہو، وہی سیٹلائٹ چینلز سے پیدا ہونے والے ذہنی مسائل کا ذمے دار ہے۔ والدین ہوں یا تربیتی ادارے یا پھر متعلقہ وزارتیں، سب بچوں کے مسائل کے ذمے دار ہیں۔ سائنس دانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ بچوں میں بہت سارے امراض نت نئے مشینی کھلونوں اور سیٹلائٹ چینلز کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ جو اقدار دیکھتے ہیں، انہی کو اپنا لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر محلے میں ایسے کلب یا کھیل کود کی جگہیں ہوں، جہاں باپ اپنے بچے کو اپنے ہمراہ لے کر جائے اور اس کے ساتھ کھیلے۔ محبوب آقا نے اس حوالے سے ہمیں اپنا خوبصورت نمونہ دیا ہے۔ آنحضرتبچوں کے ساتھ کھیلا اور ان کا دل بہلایا کرتے تھے۔