آئیں!کراچی کو پھر روشنیوں کا شہر بنائیں
شہر قائد، پاکستان کا معاشی حب ہے جسے میٹروپولیٹن سٹی بھی کہا جاتا ہے اور میگا سٹی بھی۔ان سب سے بڑھ کر کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ کا خطاب بھی حاصل ہے۔ اس شہر کی انفرادیت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ سمندر کنارے واقع ہے اور یہاں بندر گاہ بھی موجود ہے۔ کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت بھی رہا۔ ملک کے تاریخی شہروں میں سب سے معروف کراچی ہی ہے۔ دنیا بھر میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھنے والا یہ شہر وسیع القلبی کا ایسا مظہر ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس شہر نے بلا امتیاز ہر کسی کو اپنی گود میں پناہ دی۔ شاید ہی کسی رنگ، نسل، قومیت، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والا کوئی ہو جو اس شہر میں نہ بستا ہو۔ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناتے کراچی نے ہمیشہ سب کے ساتھ بڑے پن کا مظاہرہ کیا مگر یہاں رہنے اور آکر بسنے والے اس کا حق ادا کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے۔ چند لاکھ کی آبادی تقریباً پونے تین کروڑ تک جا پہنچی ہے مگر اس شہر نے اپنی بانہیں نہیں سمیٹیں، تاہم یہاں کے باسیوں نے اس کے سینے پر جتنے تیر چلائے ہیں اس کی شاید ملک میں کوئی دوسری مثال نہیں۔ وسیع میدانوں، پارکوں، کھلی سڑکوں، چوڑی گلیوں، کشادہ دالانوں کے حامل اس شہر میں آج چند گز کی جگہ بھی ملنا محال نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی میں کاروبار کی مثال دی جاتی تھی کہ ’’یہاں تو کچرا بھی بکتا ہے‘‘ تاہم لوگوں نے کچرے کے ساتھ اس شہر کو بھی بیچ ڈالا اور نتیجتاً عروس البلاد کو بدصورت شہر میں تبدیل کرکے ایک بڑی کچرا کنڈی کے مانند بنا کر لاوارث چھوڑ دیا۔ اس شہر میں رہنے اور کمانے والوں نے اس سے ہمیشہ مانگا ہی مانگا ہے، بدلے میں دیا کچھ نہیں۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا تنظیمیں، کسی نے کام کی کوشش کی تو دوسرے نے اس کی ٹانگ کھینچی۔ کسی نے مفادات کی خاطر کام کیا تو کسی نے صرف دکھاوے کے لیے۔ یہاں تقریباً ہر سیاسی جماعت کو حکمرانی مل چکی ہے بلکہ کئی کئی بار مل چکی ہے مگر یہ روشنیوں کا شہر وقت ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تاریکی کی جانب بڑھتا گیا اور آج وہ وقت ہے کہ یہاں فٹ پاتھوں پر چلنے کی جگہ ہے نہ پارکوں میں سیر و تفریح کے مواقع۔ یہاں ہر جانب آپ کو بدبو، گٹروں کا پانی، اڑتی مٹی، گاڑیوں کا شور، دھواں،لوٹ کھسوٹ کہ بس اللہ کی پناہ۔ اب شاید ہی ایسا کوئی جرم ہو جو اس شہر میں نہ ہوتا ہو۔ کراچی آج بدحالی کی علامت اور جرائم کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس شہر میں رہ کر خود کو لکھ پتی سے ارب پتی بنانے والے بیشتر لوگ اسے لاوارث چھوڑ گئے۔ یہاں پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں، گھروں، گلیوں اور یہاں تک کہ سرکاری زمینوں پر بھی کھلے عام قبضے کرلیے گئے۔ جس کے ہتھے جو جگہ آئی، اُس نے موقع غنیمت جان کر ’’چائنا کٹنگ‘‘ کی اور فروخت کرکے چلتا بنا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یہاں چلنے کو جگہ نہیں، گاڑیاں سڑک پر دوڑنے کے بجائے رینگ کر چلتی ہیں، ٹریفک کی میلوں طویل قطاریں لگی ہیں، گنجان آباد علاقوں کی کسی گلی میں 2 گاڑیاں بیک وقت نہیں جا سکتیں، تاجروں نے دکان کو گوداموں میں تبدیل کرکے فٹ پاتھ پر دکان سجا رکھی ہے۔ یہاں رہنے والوں نے گھروں کی توسیع کرکے گلیوں اور بازاروں کو چھوٹا کردیا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا اور نہ ہی یکطرفہ بلکہ ہر دور میں سرکاری اداروں میں رشوت لینے اور عوام میں رشوت دینے کے رجحان نے آج اس شہر کو کنکریٹ اور زہریلے دھویں سے بھرے جنگل میں تبدیل کردیا ہے۔ایسے میں چند ماہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے جہاں کئی شہروں میں تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا وہیں شہر قائد کے لیے بھی ایکشن لیا گیا اور عدالتی ڈنڈے کی طاقت دیکھئے کہ بے اختیار ہونے کے دعوے دار میئر کراچی نے کئی جگہوں پر راتوں رات کارروائیاں کرکے تجاوزات کا خاتمہ کیا اور بیشتر مقامات پر چند دن کی مہلت دے کر بلڈوزر چلائے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تاجر طبقہ جس کا چلتا کاروبار راتوں رات ختم کردیا گیا اور ان سے وابستہ ہزاروں ملازمین بھی اچانک ہی فارغ ہو گئے۔ احتجاج ہوا، عدالت سے رجوع کیا گیا، بلدیہ اور صوبائی حکومت نے سر جوڑے اور نتیجہ نکالا کہ جائز متاثرین کو متبادل جگہیں فراہم کی جائیں گی تاہم جو مکانات تجاوزات میں شمار ہوئے، انہیں مہلت دی گئی کہ متبادل بندوبست کریں۔ ہمیشہ کی طرح صورت حال کو سیاسی رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ کسی نے تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کو درست قرار دیا تو کسی نے غریب کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف۔ یہاں ایک بات تو واضح ہے کہ روزگار اور غربت کو بنیاد بنا کر تجاوزات کی حمایت کرنا بے وقوفی ہوگی تاہم حکومت اور انتظامیہ کو اس اہم موقع پر اپنا فوری اور موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آپریشن جو برسوں پہلے ہو جانا چاہیے تھا یا جس کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے تھی، وہ شروع ہونے کی صورت میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کچھ متبادل بندوبست کیا جائے تاکہ خاندانوں کے چولہے نہ ٹھنڈے ہوں۔
تجاوزات ختم کرنے کے لیے جاری آپریشن کے دوران ہی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ کراچی میں سرکلر ریلوے بحال کی جائے، جس کے لیے مقامی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور محکمہ ریلوے خواب خرگوش سے بیدار ہوا اور اس نے کارروائی کا سوچا۔ شہر میں پھیلے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر سیکڑوں گھر، سڑکیں اور عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں جن کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے تاہم اس صورت حال میں بھی حکومت کو یہی سوچنا ہوگا کہ یہ تمام تعمیرات سرکاری اداروں کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھیں، لہٰذا ان کے خاتمے کے وقت متاثرین کے لیے متبادل بندوبست کرکے سرکلر ریلوے کے ٹریک کو بحال کرایا جائے کہ یہ منصوبہ شہریوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی اچھی سہولت کی کمی کو پورا کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں تاجروں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین اپنے خاندانوں سمیت متاثر ہوئے ہیں تاہم حکومت اور سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں متبادل دکانیں اور مقامات دینے کی یقین دہانی بھی خوش آئند ہے۔ دعا ہے کہ اس شہر کو ایسے حکمران ملیں جو بلا امتیاز اس کی خدمت کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر عروس البلاد بنائیں۔ یہاں روشنیاں جگمگائیں، تاہم حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والوں کی مدد کے بغیر شہر کو خوبصورت بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے اس شہر کے باسیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس شہر کا حق ادا کریں۔