لڑکیوں کا بھاگنا... معانی اور انجام
سلمان بن محمد الغمری ۔ الجزیرہ
میں اپنے قارئین سے معذرت چاہوں گا۔میں اسلام میں خواتین کے مقام و رتبے کی بابت مغربی دانشوروں کی تحریروں کے کچھ نمونے پیش کررہا ہوں۔ یہ کام میں تاخیر سے کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ شروعات فرانس کے معروف ادیب اور ڈاکٹر گوستاف لوبون کے اس مقولہ سے کرنا چاہوں گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”اسلام نے خواتین کی حالت بہت بہتر بنادی ، اسلام پہلا دین ہے جس نے خاتون کا رتبہ بلند کیا۔ مشرقی دنیا میں خواتین کا احترام یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے“۔
ایک انگریز دانشور کا کہناہے کہ خواتین سے متعلق اسلام کے احکام دو ٹوک ہیں۔ اسلام نے خواتین کو اذیت پہنچانے والے ہر کام سے بچانے اوراس کی پہچان کو بدنام کرنے والے ہر کام سے دور رکھنے کی ہدایت دی ہے۔
فرانسیسی جریدہ مونٹیر لکھتا ہے کہ ”اسلام نے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے عظیم اصلاحات دیں، اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اسلام نے خواتین کو جو قانونی حقوق دیئے وہ فرانسیسی خواتین کو دیئے جانے والے قانونی حقوق سے کہیں زیادہ ہیں“۔
مجھے شروعات قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے کرنی چاہئے تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے حقوق کی حفاظت ، اسکے وقار کے تحفظ ، اسکی سربلندی کی صریح ہدایات دی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان یا عمل کے ذریعے خواتین کو کسی بھی طرح کے تشدد کا نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔ میں نے اپنے کالم کی شروعات انصاف پسند مغربی مفکرین کے اقوال سے صرف اسلئے کی کیونکہ ہمارے ہموطن مغربی دنیا میں خواتین سے متعلق خود ساختہ حقوق کے حوالے سے بڑے متاثر ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے خواتین کے ساتھ انصاف کم کیا ہے اور اسکے وقار کونقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اے اللہ ! میں یتیموں اور خواتین ،2 کمزوروں کے حقوق کی تاکید کرتا ہوں“۔ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں گھر کو مرد سے نہیں بلکہ خاتون سے منسوب کیا ہے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ گھر کی مالکن عورت ہوتی ہے مرد نہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے ”انہیں انکے گھروں سے نہ نکالو“ اس طرح کی متعدد آیات ہیں جن میں عورت کے مقام و رتبے ، حقوق اور وقار کے تحفظ کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ سعودی عرب ایسی ریاست ہے جو زندگی کے تمام معاملات میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
میں نے یہ لمبی چوڑی تمہید اسلئے باندھی کیونکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ، ذرائع ابلاغ اور پناہ گزینوں کی نگہداشت پر مامور بین الاقوامی اداروں نے ایک سعودی لڑکی کے مملکت سے ایشیائی ملک فرار ہونے اور پھر وہاں سے کینیڈا چلے جانے اور مذہبی و سماجی جبر کی بنیاد پر پناہ طلب کرنے کے واقعہ کو جم کر اچھالا۔ زمین ، آسمان ایک کردیا۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرونگا کہ وہ سعودی لڑکوں اور لڑکیوں کو صحت، عافیت اور اچھے ماحول میں رکھے ہوئے ہے۔ ایک لڑکی کا سعودی عرب سے فرار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کہیں بھی معاشرے کے مزاج کے برخلاف کوئی بھی واقعہ ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اسکا سبب ذہنی ہو۔ شیطانی ترغیب ہو۔ ایمان کی کمزوری ہو۔ کھلے اور چھپے شیطانوں کی جانب سے لڑکوں اور لڑکیوں پر اثر اندازی ہو۔
جہاں تک سعودی لڑکی کے معاملے سے دنیا بھر کی دلچسپی کا معاملہ اور تنظیموں کی جانب سے حقوق نسواں کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوﺅں کی بات ہے تو میں ان سے سوال کرنا چاہوں گا کہ شام، فلسطین، عراق اور برما وغیرہ ممالک میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق بڑے پیمانے پر پامال کئے گئے۔ انکی آبرو سے کھیلا گیا۔ ان سب کے مسائل اور حقوق کی بابت یہ تنظیمیں خاموشی کیوں سادھے ہوئے ہیں؟
سچی بات تو یہ ہے کہ معاملہ انسانی حقوق یا مسلم لڑکیوں کی آبرو سے دلچسپی کا نہیں بلکہ یہ تنظیمیں اور ادارے ہمارے معاشرے میں مذہب سے انحراف ، اخلاقی قدروں سے بغاوت اور مادر پدر آزادی کا پرچار کررہی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭