پاکستان نہ بنتا تو جج نہیں کسی ہندو بنیئے کا منشی ہوتا،ثاقب نثار
لاہور... سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین میں درج ہے کہ جب ایگزیکٹو پرفارم نہ کر ے تو عدلیہ ایڈ منسٹریٹو ایکشن لے سکتی ہے۔ہم نے اور ہمارے بڑوں نے کوتاہی برتی لیکن آج کی اور آنے والی نسلیں کوتاہی نہ برتیں۔آپ کو اپنے حقوق کےلئے جاگتے رہنا اور اس پر پہرہ دینا ہے۔ کسی کوو وضاحت پیش کرنے نہیں آیا۔ جسے جوڈیشل ایکٹوازم کہا جاتا ہے وہ سپریم کورٹ نے اپنی ڈیوٹی سر انجام دی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کا حال بہت برا ہے۔ میری ایک ہی سوچ تھی کس طرح بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ہونی ہے ۔ یہ ویلفیئر اسٹیٹ ہے۔ اس کے تقاضے ہیں لیکن آج بیمار کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک ملازم تھا جو بیمار ہو گیا میں نے پوچھا دوائی کھاتے ہو تو اس نے کہا کہ بیٹی کی شادی کرنی تھی اس لئے دوائی نہیں کھاتا ۔ ریاست مدد نہیں کرتی یا وسائل نہیں ۔ میں کسی کو مجرم ٹھہرانے نہیں آیا لیکن ان حالات سے آگاہ کرتا ہوں کہ وہ کیا وجوہ تھی جس وقت جوڈیشل ایکٹوزم ہوا۔ جو بھی کام کیا نیک نیتی سے کیا ۔ دوستوں سے کہتا تھا کہ ہم نے پے بیک کرنا ہے ۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو میں شاید کسی ہندو بنیے کا منشی ہوتا، جج نہ ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک سے محبت کریں اوریہ جنون کی کیفیت ہے ۔ جب آپ جنون پیدا کر لیتے ہیں تو حالات تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان بنانے کے لئے قائد اعظم کا جنون تھا۔ آپ جب لا علاج مرض میںمبتلا ہوئے تو آپ نے کہا کہ یہ مرض ظاہر نہ ہو ۔انگریز نے کہا تھاکہ اگر معلوم ہو جاتا کہ قائد اعظم کی طبیعت ناساز ہے تو پاکستان کے بننے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا لیکن آپ اور میں اس کی رکھوالی نہیں کر سکے ۔ فرض میں کوتاہی نہ کریں جو ہم نے اور ہمارے بڑوں نے کی۔