Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساہیوال میں قیامت،جو گزر گئی!!

***سجاد وریاہ***
میرے وطن کی فضائیں سوگوار ہیں ،میری قوم کی بیٹیوں کی ردائیں تار تار ہیں کہ مسلسل ہم کئی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہیں ،کبھی غیروں کے ہاتھوں اور کبھی اپنے محافظوں کے ہاتھوں۔مجھے اظہار ِندامت کرنا ہے کہ میرے ملک کے ادارے سی ٹی ڈی نے وحشت میں مبتلا ہو کر دہشت کے نام پر معصوم خاندان کو اندھا دھند بھون ڈالا۔میں کچھ مفروضوں کی بنیاد پر سوالات اُٹھانا چاہتا ہوں ،سی ٹی ڈی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب ایسے آپریشن کیے جاتے ہیں تو کیا دماغ اور آنکھیں بھی بند رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے؟میں اگر تسلیم بھی کر لوں کہ ذیشان جاوید کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا تو کیا اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا ؟کیا ایک ذیشان ،سی ٹی ڈی پر بھاری تھا؟سی ٹی ڈی کی اہلیت بُری طرح بے نقاب ہو گئی جب وہ دیکھتے ہوئے کہ ایک خاندان بھی ساتھ سفر کر رہا ہے اور نہتے لوگ ہیں ،پھر بھی دہشتگردی کرنے سے باز نہیں آئی۔ اب تک کے حکومتی موقف اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ذیشان جاوید کا کردار مشکوک ہے۔ذیشان کا کردار ابھی تک کی معلومات کے مطابق محض ایک سہولت کار کا تھا ،وہ ایک عملی دہشت گرد نہیں تھا ۔ذیشان ایک ایسا سہولت کار تھا جو اپنے گھر میں رہتا تھا ،اپنے محلے میں گھومتا ،لوگوں سے ملتا ،کام کرتا تھا ۔سی ٹی ڈی کے مطابق اُسکی کار بھی کسی دہشت گرد کی ملکیت تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مشکوک کردار کے لوگوں کو پہچاننا ،عام لوگوں کیلئے مشکل ہو تا ہے ،ایسے لوگ اپنی مشکوک سر گرمیوں سے کسی کو آگاہ نہیں ہو نے دیتے،اسلئے یہ کہنا کہ مہر خلیل فیملی کو اس کے کردار کے بارے میں پتہ نہیں تھا ،محلے داری کی بنیاد پر ان کے آپس میں تعلقات تھے،جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی شادیوں اور تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔اسی لئے وہ مہر خلیل کے ساتھ ان کی خاندانی شادی پر بورے والا جا رہا تھا۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب اسکی ریکی کی جا رہی تھی ،تو اسکو اسکے گھر سے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟جب وہ اپنے گھر میں ،محلے میں رہتا ہے تو اسکو گرفتار کیا جا سکتا ہے،تو اسکو گاڑی میں پیچھا کرکے ساہیوال میں جا کر مارنے میں کیا راز پوشیدہ ہے؟اگر اس کو گھیر لیا گیا ہے تو گرفتار کرنے کی بجائے اسکے ساتھ فیملی کو قتل کرکے بربریت کی انتہا کیوں کی گئی؟اس خاندان کو صرف ذیشان سے تعلق کی بنیاد پر قتل کیا گیا؟ذیشان سے تعلق تو پی ٹی آئی کی عندلیب عباس کا بھی ثابت ہو چکا ہے؟کیا ان کو بھی دہشتگردوں سے تعلق کی بنیاد پر کوئی سزا دی جائے؟
ڈی پی او ساہیوال کیپٹن(ر) محمد علی ضیاء سے اس واقعہ کی تفصیلات کے متعلق ان کا موقف لینے کیلئے ان کو کال کی ،رابطہ نہ ہوا ،کچھ دیر میں ان کا مسیج آیا ،very busy،۔میں سمجھا کہ وہ اس وقت سی ٹی ڈی کی طرف سے مسلط کردہ صورتحال کو سنبھالنے میں مشغول ہیں اور ان کے پاس شاید وضاحت کے لیے کچھ ہے بھی نہیں۔میں اس وقت میڈیا کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کی بنیا د پر کالم لکھ رہا ہوں۔ میری قوم پچھلے کئی سالوں سے اپنوں اور غیروں کی بپا کردہ دہشت کی زد میں ہے۔ہم نے کئی دہائیوں کی ظُلم و بربریت کی آندھیوں کو جھیلا ہے ،اس میں اندرونی محاذ میں بھی دہشتگردوں کے نیٹ ورک کام کرتے رہے ہیں لیکن عام لوگوں کو ان سے تعلق کی بنیا د پر کب تک ریاستی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا؟ریاستی اداروں کو فنڈز اور اختیارات دیئے،میڈیا نے سیکورٹی اداروں کو تعاون فراہم کیا،پارلیمان نے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی،ان تمام اقدامات کا مقصد صرف اور صرف دہشتگردی کا خاتمہ تھا ،میں سوال کرتا ہوں کہ کیا ریاستی اداروں کا اس سلسلے میں ذمہ داری کا احساس زیادہ نہیں ہونا چاہیے؟ان کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی بے قصور اس کی زد میں نہ آئے؟پولیس ،سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی ایجنسیوں سمیت کسی کو بھی ایسا لائسنس نہیں ملنا چاہئے کہ وہ دہشتگردی کے الزام کی بنیاد پر بربریت برپا کر دے؟ان اداروں کو پا بند بنایا جانا چاہئے کہ وہ الزام ثابت کریں۔پاکستان کے عوام کا ردعمل تو حکومت اور ادارے دیکھ چکے،اگر آئند احتیاط نہ کی گئی تو عوام اور میڈیا ریاستی اداروں کی بے لگام کارروائیوں کیخلاف اُٹھ کھڑا ہو گا ۔
اس افسوسناک سانحے کے بعد پنجاب حکومت  کا موقف بھی مسلسل بدلتا رہا ،کبھی وزراء ،کبھی سی ٹی ڈی ،نئی کہانیاں اپنی اپنی زبان سے سناتے رہے۔میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں سی ٹی ڈی نے اعلیٰ درجے کی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ایک ایسا سہولت کار جو لاہور شہر میں رہتا تھا اس کو گرفتار کیا جا سکتا تھا اسکو ساہیوال میں قتل کرنے کیلئے اپنی قابلیت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ایک سہولت کار کے ساتھ 3 معصوم لوگوں کو قتل کر کے ان کے سامان سے زیورات اور نقدی بھی لوٹ کر اپنی اخلاقی تربیت کا بھی اظہار کردیا۔
میں اس واقعے سے متعلق تفصیلات کو پڑھتے ہوئے کئی بار اشک بار ہو گیا ،جب یہ سوچتا ہوں کہ بچوں کے سامنے والدین کو قتل کیا گیا تو ان بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی؟جب یہ پڑھا کہ ماں اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ان کے اوپر لیٹ گئی اور خود 13 گولیوں کا نشانہ بن گئی۔ اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش میں خو د کو موت کے حوالے کردیا تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔میرا سلام اس ماں کو ،اللہ پاک تُجھے جنت میں راحت نصیب کرے ،پھر سوچتا ہوں اورمیرا گمان ہے کہ اس ماں کو جس نے اپنے بچوں پر گولیاں برستے دیکھی ہوں ،جس کی بیٹی اور شوہر ریاستی دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھ جائیں ، اس کا دھیان اپنی معصوم بیٹیوں ،اور زخمی خوف زدہ بیٹے کی جانب ہی ہوگا ،میں تو حیران ہوں ،ان ’’دہشتگردوں‘‘ کی ہمت پر ،جنہوں نے ان معصوم پریوں کے خوف زدہ چہروں پر پھیلی ویرانی کوبھی محسوس نہ کیا ۔ان کو پٹرول پمپ پر چھوڑ گئے۔ان ظالموں کو عبرت کا نشان بنانا چاہئے،ان کو لگا م ڈالی جائے ،ان وحشی لوگوں کی منصوبہ بندی صفر ہے ،ان کویہ اختیار ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ معصوم پاکستانیوں کے لئے اپنی ہی دھرتی کو مذبحہ بنا کے رکھ دیں۔وزیراعظم عمران خان صاحب ،نئے پاکستان کی نئی حکومت کا امتحان ہے ،قانون کی حکمرانی کے اُصول صرف کمزوروں کیلئے نہیں، طاقتوروں کیلئے بھی ہونا چاہئیں۔اپنے وزیروں کی زُبان بندی کر دیں تو مہربانی ہو گی ،ان کی زبان سے نکلتے الفاظ ،متاثرین اور لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔نئے پاکستان میں پولیس گردی ،ریاستی اداروں کی بدمعاشی اور معاشی بمباری مسلسل ہورہی ہے ،وزراء صاحبان ہیں کہ جذباتی تقریریں اور اکڑفوں سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔مہر خلیل اور ان کی فیملی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ان کے خاندان پر قیامت گُزر گئی ہے ،ان کا جینا بھی اب کیا جینا ہے؟ ۔مجھے لگتا ہے کسی ایسی صورتحال کے لیے ہی غالب نے کہا ہو گا 
حیران ہوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
 

شیئر: