اپوزیشن اتحاد اندرونی تضادات کا شکار
جمعرات 17 جنوری 2019 3:00
وطنِ عزیز پاکستان میں موسم سرماکے یخ بستہ ماحول میں سیاست کی گرمی عروج پہ ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد بنا نے کا دعویٰ کیا ہے، زرداری صاحب کے مطابق اتحاد وجود پاچکا ہے جبکہ شہباز شریف صاحب کا موقف تھوڑا محتاط رہا ،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ایک کمیٹی بنے گی جو تمام مسائل کے حل کے لیے مذاکرات،فیصلہ اور تعاون کرے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب اس اتحاد کو ’’ٹھگز آف پاکستان‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہند میں ’’ٹھگز آف ہندوستان‘‘ نام کی ایک فلم بھاری بجٹ سے بنائی گئی تھی جو بری طرح فلاپ ہو گئی ہے،اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والا اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد’’ٹھگز آف پاکستان ‘‘ بھی فلاپ ہو جائے گا۔ٹھگز آف پاکستان کے ٹریلر نے کافی دھوم مچا رکھی ہے اور میڈیا کی اسکرینوں پر اسکی اشتہاری مہم جاری ہے لیکن کیا یہ اتحاد ،عملی طور پر کچھ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟کیا ان سیاسی رہنماوٗں کا مشن واقعی کچھ جمہوریت کی خدمت ہے؟ان کے ماضی کے کردار کو دیکھتے ہوئے تو مجھے نہیں لگتا کہ ان کا اتحاد کسی اُصول پر قائم ہوا ہے،اس اتحاد کی بنیا دی وجوہ میں عمران خان کی دشمنی کے جذبے کو بنیادی اور مرکزی مقام حاصل ہے۔اسکے بعداحتساب کا عمل ان جماعتوں کو انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزارنے کا سبب بن رہا ہے۔ان جماعتوں کی سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو کوئی بھی جماعت اُصولوں پر قائم نہیں رہی۔جس جماعت کو جب بھی ،جس کے ساتھ بھی اقتدار میں شامل ہونے کا موقع ملا ،اُس نے اپنے اُصولوں کے ٹوکرے کو سر سے اُتار پھینکنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کی۔مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن کے مخالف جنرل مشرف کے ساتھ مل کر پختونخوا میں حکومت بنانے میں ہی جمہوریت کی بھلائی سمجھی۔وفاق میں مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن لیڈر کی کُرسی پر قبضہ جما لیا ۔ زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا اور اسی پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا کر جمہوریت کے سفر کو دوام بخشا۔ نواز شریف نے جنرل مشرف کے زمانے میں تمام اپوزیشن جماعتوں کا الیکشن سے بائیکاٹ کروادیا اور خود الیکشن میں چلے گئے،ان کی اس حرکت پر عمران خان اور جماعت اسلامی نے احتجاج بھی کیا۔ان جماعتوں کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ لوگ اقتدار کے حصول کے لئے کبھی بھی کسی بھی اتحاد سے الگ ہو سکتے ہیں۔ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے میں ایک رائے قائم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ان اپوزیشن جماعتوں کو ہی دراصل ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے۔ یہ ایک دوسرے کو استعمال کر کے اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی بارگیننگ پوزیشن کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں۔ان میں سے جس کی بھی دال گلتی نظر آئی وہ اس ٹھگز آف پاکستان فلم کے سین سے ایسے غائب ہو گا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جو منظر میں بیان کر رہا ہوں اس کا عملی مظاہرہ زرداری صاحب فرما چکے ہیں۔جب سینیٹ چیئر مین کے انتخاب کے موقع پر ن لیگ نے خود بول کر کہا کہ رضا ربانی کو نامزد کر دو ،ہم سپورٹ کریں گے ،لیکن اس وقت زرداری صاحب کا مشن جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ’’طاقتوروں‘‘ کو پیغام دینا تھا کہ میں ’فدوی‘ آصف علی زرداری آپ کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہوں ،آپکے اشارہ ابرو پر سرِ تسلیم خم ہو گا۔ زرداری بھاوٗ تاوٗ کے تو ماہر کھلاڑی ہیں ،اس لیے’ کچھ لو اورکچھ دو ‘ کے فارمولے پر عمل درآمد اور حساب کتاب کے لئے کیلکو لیٹر ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔آصف زرداری توقع کر رہے تھے کہ ان کے ’’اومنی‘‘ گروپ کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا ،وہ سِندھ کے حاکم رہیں گے اور وفاق میں اپنی جمہوری بصیرت کا فیض پہنچاتے رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہو ا،ان کا حساب کتاب کا فارمولا ناکام ہوا ،جے آئی ٹی نے ان کے گِرد گھیرا تنگ کیا تو انہیں پھر جمہوریت یاد آگئی۔ پارلیمان کی بالا دستی کی مالا جپتے ہو ئے کل اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر میں جا پہنچے۔ شہباز شریف نے بھی کمال وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا اور باہر آکر گلے سے لگایا ،شکریہ ادا کیا کہ لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کیلئے ڈھونڈھتا پھر رہا تھا ،آپ خود ہی تشریف لے آئے ۔ ان جماعتوں کو ایک دوسرے پر بالکل ہی اعتماد نہیں۔جہاں جس کو بارگیننگ پوزیشن بہتر نظر آئی وہ دوسرے کو بیچ منجدھار چھوڑنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا۔میرا ‘‘گمان‘‘ ہے کہ شہباز شریف اپنے معاملات سیٹل کرنے کے لئے اس بار زرداری گروپ کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس وقت بظاہر یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی زیادہ مشکل میں ہے۔ان کی کرپشن کے قصے زیادہ مضبوط ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں ، زرداری جس مشکل وقت کو ٹالنے کی خاطر ’’اچھا بچہ‘‘ بننے کا پیغام دیتے رہے ،وہ وقت اب عین دروازے پر آن پہنچا ہے۔زرداری صاحب اب خود کو ’’ہیرو‘‘ بنانے کے لئے پھوکے فائر کرتے رہیں گے،لیکن ان کی اخلاقی ساکھ کی ابتری اس بار ان کو نہیں بچا پائے گی۔پوری اپوزیشن کو اگر کوئی مسئلہ در پیش ہے تو ان کی اخلاقی ساکھ ہے،جس کی وجہ سے کوئی بھی ان کی بات پر کان دھرنے کو تیا ر نہیں۔مجھے تو حیرت ہوتی ہے رضا ربانی ،کی خاموشی پر ۔کرپشن پر بولتے ہوئے زبان کیوں گنگ ہو جاتی ہے۔؟
’’ٹھگز آف پاکستان‘‘ کا یہ اتحاد اپنی ہی کمزوریوں اور اندرونی تضادات کا شکار ہو کر تِتر بِتر ہو جائے گا،ایک منظر دیکھنے کو ملا ہے کہ جب ان پر کرپشن کا الزام لگتا ہے وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم نے نہیں کی بلکہ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اُس کو بھی پکڑو ،اُس کو بھی پکڑو۔ سیاست ، صحافت اور ایجوکیشن کی بنیاد اور طاقت ،اس کی اخلاقی برتری ہوتی ہے۔اب ان شعبوں میں زوال کی گہرائی کو ماپنا ممکن نہیں ہے۔شہباز شریف اور زرداری ،پارلیمان میں کھڑے ہو کر ’’بھاشن‘‘ دیتے ہیں۔اللہ کی شان ہے کہ شرم بھی محسوس نہیں ہو تی بلکہ فخر سے کہا جاتا ہے کہ میں نے بہت نیب دیکھے ہیں ،آگے بھی دیکھ لُوں گا اور ارکان پا رلیمنٹ تالیا ں بجاتے ہیں،جن کا کام تھا جو پوچھتے کہ زرداری صاحب کرپشن کے الزامات کا جواب دو ،وہ تالیاں بجا رہے تھے،پھر کہتے ہیں کہ پارلیمان سُپریم ہے،کیا اس کی اخلاقیات بھی سُپریم نہیں ہو نی چاہیئے؟کرپشن کے دفاع میں اتحاد قائم کرنے میں اخلاقیات کو شکست نہیں ہوئی؟یہ اتحاد ،اخلاقی پستی کی زد میں ہے اور ہر ممبر مفاد پرست ہے ،اس لئے ان کو کوئی سنجیدہ نہیں لے گا۔