Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رعایتیں، اثاثے اور اللہ کا وعدہ

فہد عامر الاحمدی ۔ الریاض
شو روم سے نکلتے ہی گاڑی کی قیمت 11فیصد ، الماس کی انگوٹھی کی قیمت 70فیصد ، عروسی جوڑے اور کمپیوٹی گیمز کی قیمت 50فیصد اور اسمارٹ فون کی قیمت 80فیصد کم ہوجاتی ہے۔
یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ تمام اشیائے صرف خریدتے ہی یا استعمال کرتے ہی یا ان سے بہتر نیا ماڈل منظر عام پر آتے ہی اپنی قدر کھو بیٹھتی ہیں۔ مذکورہ شرح سے قیمت میں کمی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کوئی سامان تبدیل کرنا چاہیں یا اسے مطلوبہ شکل میں استعمال نہ کرنا چاہیں تو ایسی صورت میں انکی قدرو قیمت گھٹ ہی جاتی ہے۔ 
ہم میں سے بیشتر لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ دولت کی 3صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو رعایتیں، دوم اثاثے اور سوم رضاکارانہ خرچ۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ نام کچھ عجیب و غریب سے ہیں تاہم سچی بات یہی ہے کہ کوئی بھی محدود المیعاد یا محدود الاستعمال سامان خریدنے پر خریدار کو دکاندار کی طرف سے رعایت دی جاتی ہے۔
جہاں تک بنیادی اثاثوں کا تعلق ہے تو یہ وہ دھن ہوتا ہے جو دوسرا دھن پیدا کرتا ہے او رحقیقی قیمت میں منافع کی شکل میں اضافہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر غیر منقولہ جائدادیں، کاروبار او رکامیاب منصوبے اس کے تحت آتے ہیں۔
جہاں تک کارخیر میں رضاکارانہ طور پر خرچ کئے جانے والے دھن کا تعلق ہے یا والدین یا نادار رشتہ داروں اور احباب کے لئے دھن مختص کرنے کا معاملہ ہے تو انکا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ رضاکارانہ خرچ کی بابت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کو خرچ کرنے پر کوئی رعایت ملی ہو یا خرچ شدہ دھن کو اثاثوںکا عنوان بھی نہیں دیا جاسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے خرچ پر اجر اللہ کی طرف سے ملتا ہے، وہ بہت بڑا ہوتا ہے مگر اسکا تعلق آخرت سے ہے۔
ہماری زندگی مذکورہ تینوں حالتوں کے درمیان گردش کرتی رہتی ہے۔ ہم اشیائے صرف خریدتے ہیں۔ انکی قیمت واپس نہیں ملتی۔ ہم لوگ مستقبل کیلئے بچت کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً کار خیر کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات ناقابل تردید ہے کہ جڑواں بچے تک مذکورہ تینوں حالتوں کے حوالے سے یکساں نہیں ہوتے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اگر اثاثوں پر رعایت بڑھ جائے تو ایسی صورت میں انسان فضول خرچ کہلائے گا۔ اسی طرح اگر اثاثے کٹوتی سے زیادہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں آپ خوشحال شمار کئے جائیں گے۔جہاں تک دونوں معاملوں میں کارخیر کے عنصر کے غلبے کا تعلق ہے تو آپ یا تو بحیثیت مالدار کے زندگی گزار رہے ہونگے یا سفید پوشی کا بھرم چل رہا ہوگا تاہم یہ سچ ہے کہ آپ ایسا کرنے پر کبھی نادار نہیں ہونگے ،یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کی گارنٹی دیتا ہوں کہ جو شخص کم عمری میں کار خیر کو اپنی پہچان بنالے وہ ابتداءمیں کم از کم خوشحال اور آخری عمر میں مالدار ہوکر ہی رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں