کیا صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں؟
میں نے لندن میں اپنے ایک پاکستانی دوست سے پوچھا جو گزشتہ 50سال سے وہاں رہائش پذیر تھا ،کہ تم باقاعدگی سے انکم ٹیکس جس کی زیادہ سے زیادہ شرح 55فیصد ہے کیوں ادا کرتے ہواور ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس’’واٹ‘‘جو17فیصد ہے وہ بھی اداکرتے ہو تو اُس نے کہا کہ ہماری حکومت ہم سے ٹیکس وصول کرکے ہم پر ہی خرچ کرتی ہے مثلاً ہمارے بچوں کیلئے ہر علاقے میں اسکول ،کالج لازمی بنائے جاتے ہیں تاکہ ہمارے بچے اچھی تعلیم اپنے اپنے گھروں کے نزدیک مفت حاصل کرسکیں ۔ہر علاقے میں پارک اور کھیل کے میدان بھی لازمی بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کی صحت اچھی رہے اور وہ کھلے میدان میں مختلف کھیل کھیل سکیں ۔یہی نہیں مفت علاج و معالجہ کی سہولت ہر علاقے میں جگہ جگہ موجود ہوتی ہے تاکہ مریض دُور دراز علاقوں میں نہیں جائیں اور اپنی ہی علاقے میں اسپتالوں میں علاج کرواسکیں ۔اس کے علاوہ خاص خاص بیماریوں کے بڑے بڑے اسپتال بھی موجود ہیں ۔ہر باشندہ ان سے مفت علاج کراسکتا ہے ۔اس کیلئے حکومت ہر شخص کا اندراج کرکے اُس کا ریکارڈ رکھتی ہے اور ہر آنے والے موذی مرض کی پیشگی اطلاع بھی دیتی ہے ۔ساتھ ساتھ بڑھتی عمر کے پیش نظر ہر6ماہ بعد اُن کو آگاہ کرتی رہتی ہے کہ اس مرض کا چیک اپ بھی کرواتے رہیں۔ اگر آپ کی نوکری چھوٹ جائے اور آپ بے روزگارہوجائیں تو باقاعدہ آپ کو بے روزگاری الائونس بھی دیتی ہے ۔اگر کسی کے پاس رہنے کی جگہ نہ ہو تو وہ اُس کی رہائش کا بھی بندوبست کرتی ہے۔ اگر کوئی مریض چل کراسپتال نہیں جاسکتا تو اُس کو لانے لے جانے کا بھی بندوبست کرتی ہے ۔
الغرض حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر باشندے کے جان ومال کی حفاظت بھی کرے ۔کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو اُس کو مفت انصاف فراہم کرے ۔یہاں کی پولیسددیانتدار ہے، رشوت خوری کو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اور وہ قابل سزاجرم بھی ہے۔یہ تمام سہولتیں اُسی وقت ممکن ہیں جب ہم خود پورا ٹیکس ادا کریں تاکہ حکومت ہمارے ہر بُرے وقت کام آسکے البتہ بچوں کی ہر چیز پر، کھیلنے والے ہر سامان پر اور غذا اور ادویات پر کوئی بھی’’واٹ‘‘ ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی مانگنے والا نہیں ملتا ۔یہاں جرائم کی تعداد بھی محدود ہے ۔یہاں 100فیصد مجرموں کو سزائیں بھی ملتی ہیں ۔ہر شخص خود بھی قانون کی پابندی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی پابندی کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔اتفاق دیکھیں کہ اسلام نے آج سے 15سوسال پہلے ہی مسلمانوں کیلئے یہ قانون بنایاتھا جس پر آج مہذب دنیا والے عمل کررہے ہیں اور خوشحال ہیں ۔آج ہم اس کا موازنہ مسلمان ملکوں سے کریں تو ایسا نظام نظر نہیں آئے گا۔ 90فیصد دنیا کے گیس، تیل اور معدنیات کے ذخائرکے باوجود مسلمان ممالک بد حالی کا شکار ہیں ۔
آج ہی کے اخبارات کی ایک جھلک سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی کو ایف بی آر نے بتایا کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد سے بھی کم افراد یعنی صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں ۔ہمارا ٹارگٹ 60لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہے مگر ہم ان افراد کو ٹیکس کے نیٹ میں نہیں لاسکے ۔اگر ہم اس خبر کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہوگا یہ صرف پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کا بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ہم جو چیز بھی امپورٹ کریں ہم سے ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس ایڈوانس وصول کرلیا جاتا ہے جبکہ دنیا میں صرف انکم پر ٹیکس لیا جاتا ہے ۔یہ ٹیکس اور سرچارج کس سے وصول ہوتا ہے ،ظاہر ہے امپورٹر خریدار سے مع نفع وصول کرلیتا ہے ۔پاکستان میں ادویات کے علاوہ ہر بننے والی شے پر 18فیصد سیلز ٹیکس ہر خریدار کو ادا کرنا پڑتا ہے جو فیکٹریوں کے مالکان سے ایڈوانس وصول کرلیا جاتا ہے ۔ہر ہر قدم پر صوبائی اور مرکزی حکومت نے اپنے اپنے ٹیکس لگارکھے ہیں ۔کھربوں روپے کے ٹیکس کیا جنات آکر اداکرکے چلے جاتے ہیں ؟
یادرہے یہ ٹیکس دیگرممالک میں نہیں لئے جاتے ۔پاکستان میں اتنے ٹیکس وصول کرنے کے بعد آج ہمارے ملک میں صاف پینے کا پانی تک میسر نہیں ۔علاج معالجے کی سہولت اور مفت تعلیم کہاں دی جاتی ہے ،بتایا جائے ۔مظلوموں کو 10دس سال تک انصاف کے لئے دربدر ہوکر بھی انصاف نہیں ملتا ۔لاکھوں مقدمات برسوں سے التوا میں پڑے ہیں ۔معصوم افراد پولیس کے ہاتھوں دن دہاڑے قتل ہوجاتے ہیں اور معاملہ’’ مک مکا‘‘ کا کردیا جاتا ہے ۔چند دن میڈیا کی زینت بنتا ہے، مجرم پکڑے جاتے ہیں اور پھر رشوت ،اثروروسوخ ،دھونس ،دھاندلی کام آتی ہے ۔مجرم، عادی مجرم بن کر چھوٹ جاتا ہے ۔
پور ا معاشرہ نفسانفسی کا شکار ہے ۔سیاستدان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔کرپشن کا بازار گرم ہے۔ ایک دوسرے کامقابلہ ہورہا ہے کہ کون کتنے کھرب کھا چکا ہے اور خود کو مظلوم بتا رہا ہے ۔پھر کہتے ہیں فائلر اور نان فائلر کی تکرار جاری ہے ۔قوم کو بتایا جائے کہ کون ہے جس نے بغیر ٹیکس اشیاء مارکیٹ سے خریدی ہو ں۔جب حکومت نے دیکھا کہ لوگ ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ میں نہیں آرہے تو اُس نے 47قسم کے ٹیکس عوام پر خاموشی سے مسلط کرکے شور مچادیا کہ صرف 15لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں حتیٰ کہ بچوں کی اشیاء اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔یہ کون ادا کرتا ہے قوم کو بتایا جائے ۔