Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے رویئے میں تبدیلی ؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسٹیٹ آف دی یونین میں طالبان کے مختلف گروپوں سے مفاہمت کی طرف پیش قدمی کی تعریف کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان اب پہلے سے مستحکم پوزیشن سے بولنے لگے ہیں۔ انہوں نے افغان لیڈروں جن میں حکومتی اہلکار شامل نہیںتھے، سے تفصیلی گفتگو کے دوران افغانستان میں نئے اسلامی آئین کا مطالبہ کردیا ہے۔ یہ نئی بات تو نہیں لیکن ایک ایسے موقع پر جب امن مذاکرات کافی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں۔ امریکہ میں بھی یہی احساس پیدا ہو گیا ہے کہ افغانستان کا حل جنگ میں نہیں امن مذاکرات سے ہی ممکن ہے تو پھر قطر میں ہونے والے دو تین دور کے بعد آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کہاں تک؟ کیایہ افغان صدر اشرف غنی، افغان حکومت اور امریکہ کو تسلیم ہوگا۔ اس پر نظریں مرکوز کرنا پڑے گی۔ طالبان نے جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہی اور ان کے ملک سے امریکی فوجوں کے انخلاءکے بعد وہ داعش کو ایک ماہ میں ختم کردیں گے۔ اسلامی نظام کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کو یہ مطالبہ منظور بھی ہوگا کہ نہیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی۔ پاکستان نے ان مذاکرات کا آغاز کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی خواہش پر وزیراعظم عمران خان نے طالبان کو بات چیت پر آمادہ کیا۔ افغان نمائندوں میں سابق صدر حامد کرزئی بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ طالبان اور خود افغان حکومت بھی ایسا حل چاہتی ہے جو پائیدار ہو اور جہاں مستقبل میں کوئی تلخی پیدا نہ ہو۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کابل کے دورہ کر کے افغان صدر اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کو قائل کیا کہ ہٹ دھرمی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ مذاکرات کی میز پروسعتِ قلب سے کام لینے میں ہی عافیت ہے۔نتائج کی امید ہے۔ آخر افغانستان کب تک جنگ و جدل میں گھرا رہے گا۔ ویسے بھی طالبان افغانستان کے 60 فیصد حصے پر قابض ہیں۔ افغان حکومت تو صرف کابل اور اطراف کے علاقوں تک ہی محیط ہے تو کیوں نہ مل جل کر باہمی اتفاق سے ایک قومی حکومت قائم کی جائے تاکہ ملک میں پائیدار امن رہے۔ اس سے ناصرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی امن و امان قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔ ایک بات تو اب بہت صاف نظر آرہی ہے کہ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثرات جو کہ خفیہ اور باقاعدہ طور پر امریکہ اور افغان حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان اپنے اثر و رسوخ میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ عمران خان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی دلیل ہے۔ حالیہ مذاکرات کے دوران طالبان قائدین نہ صرف افغان ہم پلہ افراد کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے بلکہ ان کے سخت گیر رویئے میں بہت بڑی تبدیلی نظر آئی جو کہ خوش آئند ہے۔ دونوں ہی طرف سے خیر سگالی کا جذبہ دیکھنے میںآیا جس سے امید کی کرن پھیلی ہے۔ طالبان نے خواتین کو بھی موقع دیا کہ وہ ماسکو مذاکرات میں اپنی بات کہہ سکیں۔ یہ پہلے ناممکنات میں سے تھا۔ طالبان نے یہاں تک اشارہ دیا کہ وہ خواتین کے معاملے میں اب نرم رویہ دکھائیں گے تاکہ وہ بھی قومی معاملات میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ آئین اسلامی روح کے مطابق ہے۔
 

شیئر: