بینہ الملحم ۔ ریاض
ہمیں یہ سچائی ماننا ہوگی کہ مغربی دنیا، اس کے اداروں اور پریشر والی لابیز ، ذرائع ابلاغ اور سرگرم عناصر کے حوالے سے اب ہم مختلف موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جب بھی اور جہاں بھی کسی کے سامنے سعودی عرب کا نام آئے تو اس کے ساتھ ہی ان کے ذہنوں میں مملکت کی مخصوص تصویر ابھر کا سامنے آجائے۔ مسئلہ خواتین کے حقوق یا انہیں اپنا کردار مضبوط شکل میں ادا کرنے کے قابل بنانے یا نہ بنانے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ سیاسی اور ابلاغی استعمار کا ہے۔اہل مغرب کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کی ایسی تصویر دنیا بھر کے سامنے آئے اور رہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ سعودی عرب جبر و تشدد کا ملک ہے۔ وہاں حقوق پامال کئے جاتے ہیں ۔ سعودی عرب خواتین کو حقوق کتنے بھی کیوں نہ دیدے، انہیں اقتدار کی کرسی پر کیوں نہ بٹھا دے، مملکت میں خواتین کے حوالے سے منفی تصویر قائم رکھنا ان کا ہدف ہے۔ یہ سارا کام کینیڈا جیسے ممالک کی جانب سے مملکت کو مشکل میں ڈالنے کی غرض سے کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی منفی تصویر بنائے رکھنے میں قطر اور الاخوان بھی تعاون دے رہے ہیں۔یہ سازش ایسے ماحول میں رچی جارہی ہے جبکہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمدبن سلمان کا ستارہ چمک رہا ہے اور سعودی وژن 2030ء کے تناظر میں ان کی شخصیت کی اہمیت مان لی گئی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی بھی شکل میں مملکت کی بگڑی ہوئی تصویر کو ٹھیک نہ ہونے دیں۔
اگر ہم سعودی خواتین کوڈرائیونگ کی اجازت سے ماقبل کی پروپیگنڈہ مہم کی یادیں تازہ کریں تو ہمیں یاد آئیگا کہ اس حوالے سے نہ جانے کیا کچھ لکھا گیا اور سعودی معاشرے سے منسوب بعض لوگوں نے اس پروپیگنڈے کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے میں تعاون دیا۔ سعودی عرب نے خواتین کے حقوق میں کمی کے تدارک کیلئے بہت سارے اقدامات کئے۔ مغربی میڈیا آج بھی ایسی کوئی نہ کوئی خامی تلاش کرتا رہتا ہے جسے بنیاد بناکر پورے سعودی عرب کو متزلزل کردے۔ یہ سارا کام منصوبہ بند طریقے سے منظم شکل میں ہورہا ہے۔ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں اور ادارے مملکت میں رونما ہونیوالے ہر واقعہ کو سیاسی رنگ دیکر رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔
مغربی ممالک کے ادارے سعودی عرب کے حوالے سے افتراپردازی میں بڑے چاق و چوبند ہیں۔ کینیڈا ہو یا کوئی اور ملک، ایران ہو یا ترکی وہاں انسانی حقوق کی نہ جانے کتنی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں مگر مذکورہ ممالک کا میڈیا یا دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ سب کے سب چپ سادھ لیتے ہیں۔ رہف القنون نامی سعودی لڑکی کا معاملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔سعودی عرب کے بعد ایک کویتی لڑکی کو بھی اسی طرح جال میں پھنسایا گیا۔ وہ بھی رہف کی طرح گھریلو جھگڑے کی بنیاد پر جرمنی گئی اور کویت کو بدنام کرنے کیلئے اس کی بھی آؤ بھگت کی گئی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مغربی میڈیا کا ہدف ہر مسئلے سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور سعودی عرب کی تصویر بگاڑنے کیلئے اس سے گھٹیاسیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ سعودی عرب ، سیاسی سطح پر اس حوالے سے جاگ چکا ہے اور اسے پتہ چل گیا ہے کہ اس قسم کے سماجی مسائل پر سیاسی موقف اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔سعودی عرب پہلے ہی کینیڈا کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات منقطع کرچکا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے سماجی اور ابلاغی سطحوں پر اس قسم کی پروپیگنڈہ مہم سے نمٹنے کی کیا تیاری کی ہے؟ ہمیں اپنے نوجوانوں کو دیکھنا ہے کہ انہیں مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ اپنی صفوں میں شامل کرنے کیلئے کیسے حربے استعمال کررہے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو ان حربوں سے نمٹنے کی راہ سجھانی ہوگی۔