اس نے خود کو سزا دینے کی ٹھان لی،بستی میں چائے کا کھوکھا لگالیا، دن بھرذلت آمیز لہجے سنتا تو ضمیر کی خلش کم ہوجاتی،گھر والوں نے واپس لے جانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا
مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ
عالم آرا نے گاڑی سے قدم باہر نکالا تو بے اختیار ناک پر رومال رکھنے پر مجبور ہوگئی۔ کس قدر گندہ علاقہ ہے۔ انہوں نے کراہت سے چاروں طرف دیکھ کر سوچا۔ ہر طرف کچرے کے ڈھیر تھے اور علاقہ مکین اپنے حال میں مست تھے انہیں کسی صفائی کی ضرورت نہیں تھی۔
سہ پہر ہونے کو آئی تھی اور پھر بھی لوگ اپنی گراں خوابی سے بیدار نہیں ہوئے تھے البتہ اسی غلیظ ماحول میں کچرے کے ڈھیر پر بنی دکانیں اور ڈھابے آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔ ایک چائے کے کھوکھے والے نے اپنا کھوکھا کھولتے ہوئے عالم آراءکو حیرت سے دیکھا اور پھر طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے قریب پڑے چائے کی پتیوں کے ڈھیر، دودھ کے خالی پیکٹ اور ڈسپوزیبل کپس کے کچرے پر اڑتی ہوئی مکھیوں کو کپڑا ہلاہلاکر منتشر کرنے لگا۔
اسے علم تھا کہ عالم آرا جیسی شریف خواتین اس بدنام زمانہ بستی میں کیوں آتی ہیںاور پھر اپنے دل کے ٹکڑوں اور ہیروں کو اس ماحول میں گم پاکر کس طرح کرچی کرچی دل کے ساتھ آنکھوں میں آنسوﺅں کا سمندر لیکر لوٹ جاتی ہیں۔
شاید یہ عور ت بھی اپنا بیٹا لینے آئی ہے جو اسے کبھی نہیں ملے گا ،اس نے سوچا۔ اسے اپنی روتی گڑگڑاتی ماں یاد آگئی جو اسے بیلا نامی فنکارہ کے گھر سے لیجانے آئی تھی اس کی آنکھوں میں حیرت اور دکھ کا منظر منجمد ہوکر رہ گیا تھا ۔جب اس کے بیٹے نے صاف انکار کردیا تھا۔ وہ کس طرح لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ واپس گئی تھی اور پھر کبھی نہیں آئی۔ صرف اس کی خبر آئی تھی جو اس نے بڑی لاپروائی سے سنی اور اپنی زندگی میں مگن ہوگیا۔ ہوش تو جب آیا جب دولت ختم اور بربادی شروع ہوئی۔ بیلا کی بے رخی نے اسے ماں کے دکھ سے آشنا کردیا۔ اُف!میں کیا کر بیٹھا؟
کاش! گزری ساعتیں لوٹ سکتیں۔جنت کھودی مگر کسی قیمت پر؟پھر اس نے خود کو سزا دینے کی ٹھان لی۔ اس نے بستی میں چائے کا کھوکھا لگالیا۔ دن بھر تمسخر، طنز اور ذلت آمیز لہجے سنتا تو ضمیر کی خلش کچھ کم ہوجاتی ۔گھر والوں نے واپس لے جانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانا ۔کبھی کبھی گھنٹوں قبرستان میں بیٹھا رہتا اور پھر تھکے وجود کو کئی دن کیلئے چھوٹے سے حجرے میں بند کرلیتا ۔ یہ کمرہ اسے یہیں کے ایک دکاندار نے ترس کھا کر دیا تھا۔
اوئے فیکے! جلدی سے دودھ پتی شروع کر۔ بے بی اٹھ گئی ہے، ناشتہ مانگ رہی ہے۔ ایک موٹے ،بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی کی آواز اسے خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی۔ اس نے نظر اٹھائی تو گھروںکے دروازے کھلنے لگے تھے۔ اس نے پھر اس جانب نظر اٹھائی جہاں عالم آرا کھڑی تھی۔ اب وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اوہ ! تو میرا اندازہ درست تھا۔ یہ بتا کر وہ (تتلی) کے گھر جارہی تھی۔ ضرور ، باﺅ مشرف کی امی ہیں۔ شکل صورت تو بالکل ویسی ہے۔ اس نے خود سے کہا اور جلدی جلدی چائے بنانے کی تیاری کرنے لگا۔
عالم آرا ، نازو کے گھر پہنچ کر رک گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اندر جائیں یا نہیں۔
آج ہی صادق نے بتایا تھا کہ مشرف ایک ہفتے کے لئے پنڈی گیا ہے اور تتلی کے گھر میں موجود نہیں تو انہوں نے تتلی کی فیملی سے بات کرنے کا سوچا اور اب وہ اس کے دروازے پر موجود تھیں۔ وہ اس تذبذب میں تھیں کہ باہر آتے ہوئے تتلی کے باپ کی نظر ان پر پڑ گئی۔
اوئے ہوئے! بیگم صاحبہ آئی ہیں۔ ارے ہمارے بھاگ کھل گئے۔ آﺅ جی ، اندر آﺅ جی، باہر کیوں کھڑی ہیں بیگم صاحبہ جی ! وہ بڑے پرتپاک انداز میں انہیں بلا رہا تھا۔ پھر اندر منہ کرکے چلانے لگا ۔ ایدھر ویکھ، باﺅلی گاں،دیکھ تو کون آیا ہے؟
(باقی آئندہ:ان شاءاللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭