Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی کو جتوانے میں مسلم سیاستدانوں کا کردار

***سید اجمل حسین ۔ دہلی ***
ملک میں پارلیمانی، اسمبلی حتیٰ کہ ضمنی انتخابات ہی کیوں نہ ہوں ہمارے خود ساختہ نام نہاد مسلم لیڈر اچانک غیر بی جے پی اور کہیں کہیں غیر کانگریسی علاقائی پارٹیوں میں سے اپنی اپنی پسند کی نہیں بلکہ ان پارٹیوں سے جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں مسلمانوں سے ان کے حق میں ووٹ کرنے کی اپیل کر کے جہاں ایک طرف ووٹروں کو صف بندی پر مجبور کر دیتے ہیں وہیں اس کا بھی مظاہرہ کر دیتے ہیںکہ ان کی کتنی وقعت ہے۔ کچھ لیڈرخاص طور پر امام شاہی مسجد دہلی سید احمد بخاری، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ کہیںیہ ایک تیر سے دو شکارتو نہیں کر رہے۔ ان کے بیان سے جہاں ایک طرف وہ پارٹی مطمئن ہو جاتی ہے کہ اب مسلم ووٹوں پر اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی لیکن دوسری جانب مسلم لیڈروں کی اپیل کا ہندو ووٹروں پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ مسلم دشمن قرار دیے جانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں متحد ہو جاتے ہیں اور جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میںنظر آگیا۔ جب مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں مسلم لیڈروں نے خاموشی اختیار کئے رکھی تو جو نتیجہ سامنے آیا وہ بھی سبھی نے دیکھا۔ اس وقت کسی مسلم لیڈر کا ہندو ووٹروں کو متحد کرنے پر مجبور کرنے والا جو تازہ ترین بیان آیا ہے وہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا ہے جس نے عام انتخابات سے پہلے ہی ایک بار پھر ہند وووٹروں کو بی جے پی کے کچھ اور قریب کر دیا۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد عمران خان اور مرکز میں بننے والی نئی حکومت مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کی پہل کریں گی۔ اسی سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی ہوگی اور ہمارے سر پر جو مصیبت ہے وہ بھی دور ہوجائے گی۔اب یہ بات تو طے ہے کہ ان کا اشارہ غیر بی جے پی حکومت کے قیام کی جانب ہے۔لیکن اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت کی واپسی کی راہ میں حائل رہی سہی رکاوٹ بھی دور ہوجائے اور جو ہندو ووٹرز رام مند نہ بن پانے کے باعث بی جے پی سے دور ہو رہے ہیں پھر بی جے پی کے پالے میں واپس آجائیں۔ یہی مسلم لیڈر اس وقت بھونچکا رہ جاتے ہیں جب ان کی اپیلوں کے باوجود ایسے حلقوں میں بھی بی جے پی جیت جاتی ہے جو مسلمانوں کا گڑھ ہوتے ہیںاور وہاں خود بی جے پی کو اپنی جیت ناممکن نظر آتی ہے۔ 2017کے اترپردیش اسمبلی انتخابات اس کی تازہ ترین مثال ہے جب دیو بند جیسے خالص مسلم علاقہ جہاں کہ عالم اسلام میں ایک مقام رکھنے والامدرسہ ’’ دارالعلوم دیو بند‘‘ ہے۔ لیکن جب اسمبلی نتائج کا اعلان شروع ہوا تو اتر پردیش اسمبلی میں شاہانہ طور پر داخل ہونے کے لیے بی جے پی کو ملنے والی 72سیٹوں میں پہلی سیٹ تھی اور اس سیٹ پر جیتتے ہی بی جے پی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ایسی بات نہیں کہ مسلم اکثریت والے علاقہ دیوبند میں ہی کانگریس کا ہاتھ پھیلا کا پھیلا ہی رہ گیا اور کمل کھل گیابلکہ 82میں سے بی جے پی نے ایسی 62سیٹوں پربھی شاندار کامیابی حاصل کی جہاں ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی تھی۔ نہ تو وہ یہ سمجھ پائے کہ آیا مسلم ووٹ مختلف غیر بی جے پی پارٹیوں میں تقسیم ہوا یا بی جے پی ان ووٹروں کو ورغلانے میں کامیاب ہو گئی۔بات کچھ بھی رہی ہو اتنا ضرور طے ہے کہ مسلم لیڈروں کی مسلمانوں کو ووٹنگ کے حوالے سے تلقین ہی ہندو ووٹروں کو منفی انداز اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔چونکہ وہ جانتے ہیں کہ بی جے پی واحد پارٹی ہے جو ان کی مسیحا ہے ۔اور مسلمانوں کی خوشامد نہیں کرتی۔ حالانکہ دیکھا جائے تو 3 طلاق جیسے کئی معاملات ہیں جن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کو مسلمانوں کا بھی مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود ہندو ووٹرز کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کیونکہ وہ صرف اور صرف بھگوا پارٹی بی جے پی پر ہی آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں۔ اگر مسلم علماء یا نام نہاد مسلم لیڈروں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے اپنی پسند کی پارٹی کے لیے ووٹ کرنے کی مسلمانوں سے اپیل نہ کی ہوتی تو شاید مسلم ووٹ منقسم ہو کر بی جے پی کی راہ آسان نہ کرتا۔یہ مسلم لیڈر نا معلوم کیوں مسلم ووٹروں کو غیر بی جے پی پارٹیوںکو ووٹ دینے کی تلقین کرتے ہیں اور بی جے پی بھی پتہ نہیںکیوں ان لیڈروں کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ سمجھ بیٹھتی ہے جبکہ اب وہ دن لد گئے جب یہی لیڈران مسلمانوں کو آج کی بی جے پی اور ماضی کی جن سنگھ سے میلوں دور رکھنے میں کامیاب ہوجاتے تھے ۔ دیوبند میںہی نہیں باقی ان 62حلقوں میں بھی جہاںآبادی کا 33فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے بی جے پی کو جیت نصیب نہ ہوتی۔2019کے انتخابات میں بھی شاید یہ ثابت ہو جائے گا کہ مسلمان بی جے پی سے نہ دور ہے اور نہ ہی اس سے متنفر ہے ۔بہرحال یہ بات طے ہے کہ اب مسلمان نام نہاد لیڈروں کے بہکائے میں آکر اپنا ووٹ ضائع نہیں کریں گے تاکہ لوک سبھا میں مناسب تعداد میں مسلم نمائندگی یقینی ہو سکے۔
 

شیئر: