Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خویشِ رسولﷺ حضرت ابو العاص ؓ بن ربیع

 سیدہ زینب ؓ سے یوں وفا کی کہ ان کے بعد کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا ،آپؓ اپنے بچوں کی پرورش میں لگ گئے

 

عبدالمنان معاویہ ۔لیاقت پور،پاکستان

    حضرت ابوالعاص ؓ بن ربیع کا شمار اُن خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جنہیں اللہ کے رسول نے اپنی صاحبزادیاں دیں یعنی حضرت عثمان ذوالنورین ؓ  اورحضرت علی المرتضیٰ ؓ ۔
    حضرت ابوالعاص ؓ کا نام باختلاف مورخین ’’لیقط ،مقسم ،یا ہشم ‘‘تھا، لیکن ان کی شہرت کنیت’’ ابوالعاص‘‘ سے ہی ہوئی ۔ان کا تعلق قریش کی ایک مشہور شاخ ’’بنو امیہ ‘‘سے تھا۔ ان کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے :    
    ’’ابوالعاص ؓ بن ربیع بن عبدالعزیٰ بن عبد ِشمس بن عبدِمناف بن قصّی ‘‘۔آپکا سلسلہ نسب عبد مناف پرحضور اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔
    آپکی والدہ ماجدہ ہالہؓ بنت خویلد تھیں اور ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓ آپ کی خالہ تھیں ۔آپ ؓکی والدہ بھی شرف صحابیت سے مشرف ہیں ۔آپؓ  تجارت کرتے تھے اور نہایت عاقل اور خوش اخلاق تھے۔آپؓ  کا شمار قریش کے صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا تھا ۔ بقول ابن اثیر حضور کی طرح آپ کو بھی لوگ ’’الامین‘‘کے لقب سے ملقب کرتے تھے ۔آپ ؓ  نہایت بہادر تھے۔ حضور کی سب سے بڑی صاحب زادی سیدہ زینب ؓ کا نکاح آپ ؓ سے قبل از بعثت نبوی ہوچکا تھا۔ جب نبی اکرم نے اعلان نبوت فرمایا تو سیدہ زینب ؓ نے بھی سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے ہمراہ مشرف بہ اسلام ہوگئی تھیں لیکن حضرت ابوالعاص ؓ نے اس وقت اسلام قبول نہ کیا ۔ اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود کبھی سیدہ زینب ؓ کو کوئی تکلیف نہ دی۔ جب قریش نے حضور اور آپکے حامی ہاشمی اور مُطلبی حضرات سے بائیکاٹ کیایعنی انہیں شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا، تو حضرت ابوالعاص ؓ کبھی کبھی چھپ چھپ کر ان حضرات کو اشیائے خورد ونوش دے آتے تھے۔شیعہ مورخ محمد تقی لکھتا ہے :رسول اللہ نے اُن کی اِس خدمت کا اعتراف ان الفاظوں میں فرمایا:
     ’’ابوالعاص نے ہماری دامادی کا حق ادا کردیا ۔‘‘(ناسخ التواریخ )۔
    جنگ بدر میں قریش کے اکسانے پر حضرت ابوالعاص ؓ بھی مشرکین کی طرف سے لڑنے آئے توگرفتار ہوگئے۔جب مشرکین نے مکہ پہنچنے کے بعد اپنے عزیزوں کی رہائی کیلئے مال و زر  ارسال کیا تو سیدہ زینب ؓ نے حضرت ابوالعاص ؓ کے بھائی عمروبن ربیع کے ہاتھ یمنی عقیق کا ہار ارسال کیا۔یہ ہار جب حضور نے دیکھا تو مبارک آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور صحابہ ؓ سے فرمایا: اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینب کو واپس بھیج دو، کیونکہ یہ اس کی ماں کی نشانی ہے۔پھر آپ نے فرمایا:ابوالعاص کا فدیہ  یہ ہے کہ مکہ پہنچ کر زینب کو مدینہ بھیج دیں۔ حضرت ابوالعاص ؓ نے تسلیم کرلیا اور حسب وعدہ سیدہ زینب ؓ  کو مدینہ بھیج دیا۔
    سیدہ زینب ؓ کے مدینہ آنے کے بعد قریش کے چند افراد حضرت ابوالعاصؓ کے پا س آئے اور کہا کہ زینب ؓ  کو طلاق دیدو، قریش کی جس عورت سے کہو تمہاری شادی کر دیتے ہیں۔حضرت ابوالعاص ؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم ! میں زینب کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا ،قریش کی کوئی عورت زینب کی برابر ی نہیں کرسکتی ۔
    حضرت ابوالعاص ؓ کو حضرت زینبؓ سے بڑی محبت تھی۔ ان کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد آپؓ بڑے بے چین رہتے تھے۔ ایک بار سفرِشام کے دوران آپؓ نے بڑی پُردرد آواز میں یہ اشعار پڑھے :
ذکرت زینب لما درکت ارما
فقلت سقیاً لشخص یسکن الحرما
بنت الامین  جزاھااللہ صالحہ
و کل بعل یشنی ما الّذی علما
(جب میں ارم سے گزرا تو زینب ؓ کو یاد کیا، اور کہاکہ خدا اس شخص کو شاداب رکھے جو حرم میں مقیم ہے، امین کی بیٹی کو خدا جزائے خیرعطا کرے ،اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے)۔
    حضرت ابوالعاصؓ  کا اسلام لانے کا واقعہ :
       اسلام لانے سے قبل 6ہجری میں حضرت ابوالعاص ؓ ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ شام جارہے تھے ،کہ صحابہ کرام ؓ نے چھاپہ مار کر قافلے سے تمام مال چھین لیا۔ حضرت ابوالعاص ؓ وہاں سے سیدھا مدینہ منورہ پہنچے ، وہاں سیدہ زینب ؓ کے پاس جاکر پناہ طلب کی۔حضرت زینب ؓ نے پناہ دی اور صبح نماز فجر کے وقت اعلان فرمایا:
    انّی قد اجرت اباالعاص بن الرّبیع ۔
    ’’مسلمانو ! میں نے ابوالعاص ؓ بن ربیع کو اپنی پناہ میںلے لیا ہے‘‘ ۔
    حضور نے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا :
    ’’ لوگو! تم نے کچھ سنا ہے ؟ ‘‘
    صحابہ ؓ نے عرض کیا :جی ہاں، تو حضور نے فرمایا :اللہ کی قسم ،اس سے پہلے مجھے اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں تھی ۔
    پھر سیدہ زینب ؓ نے حضور سے سفارش کی کہ ابوالعاص ؓ کا سامان اسے واپس کردیا جائے۔
    حضور نے صحابہ ؓ سے فرمایا :
    ’’ تم میرے اور ابوالعاص کے رشتہ سے واقف ہو ،اگر تم اس کا مال واپس کردو تو یہ تمہارا احسان ہوگا اور میری خوشی کا باعث ہوگا، اگر نہ کرو گے تو یہ اللہ کا عطیہ اور تمہارا حق ہے ‘‘۔
    پیکرِ وفا، اخلاصِ مجسم حضرات صحابہ کرام ؓ  تو سرکار دوعالم کی اشارۂ ابرو پر جانیں نچھاور کرنا باعث ِ عزوشرف گرادنتے تھے اور جانیں نچھاور کردیتے تھے ، آپ کے فرمان ذیشان کے فوراً بعد تما م مال واسباب سیدنا ابو العاص کو واپس کردیا ۔
    حضرت ابوالعاص ؓ یہ مال لے کر مکہ پہنچے اور تمام لوگوں کا مال واپس کیا۔ تمام لوگوں سے بآواز بلند پوچھا :کسی کا کوئی مال تو میرے ذمہ باقی نہیں ؟ تمام اہل مکہ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا’’بالکل نہیں! خدا تمہارا بھلا کرے ،تم ایک نیک اور باوفا شخص ہو ‘‘۔ان کا جواب سننے کے بعدآپؓ نے فرمایا:
     ’’تو سن لو ،میں مسلمان ہوتا ہوں ،خدا کی قسم! اسلام قبول کرنے میں مجھے صرف یہ امر مانع تھا کہ تم مجھے خائن نہ سمجھو‘‘۔
    یہ فرماکر آپؓ نے کلمہ شہادت پڑھا اور سیدھا مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرماکر آگئے۔ مدینہ پہنچ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور باقاعدہ مشرف بہ ایمان ہوگئے ۔
    جیساکہ ہم اوپر درج کرآئے ہیں کہ حضرت ابوالعاص امویؓ  کا تجارتی کاروبار تھا ۔آپؓ کے حسن معاملہ کی وجہ سے مکہ کے مشرکین نے آپ کے اسلام لانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، تو آپ ؓ  آنحضور سے اجازت لے کر واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اور اپنے کاروبار میں مشغول ہوگئے ۔
    سیدنا ابو العاص نے7ھ ہجری میں اسلام قبول کیا، 8ھ کو سیدہ زینب ؓ  کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ابوالعاص ؓ کو ان کی وفات سے بے حد صدمہ پہنچا، لیکن انہوں نے صبرو استقامت سے کام لیا ۔ سیدہ زینب ؓ سے یوں وفا کی کہ ان کے بعد کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا ،آپؓ اپنے بچوں کی پرورش میں لگ گئے ۔
    سیدہ زینب ؓ کے بطن سے حضرت ابوالعاصؓ اموی کی2اولادیں ہوئی تھیں۔ ایک بیٹاعلی اور ایک بیٹی امامہ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے نبی کے سب سے بڑے نواسے ونواسی کو جانتی تک نہیں ۔باعث ِ افسوس امر یہ ہے کہ علمائے کرام کی اکثریت بھی اپنے خطبات میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے ۔
    سیدناعلی ؓ بن ابوالعاص امویؓ  حضور کو بہت محبوب تھے اور فتح مکہ کے موقع پر یہی سبطِ رسول ؐ  حضور کے ہمراہ اونٹنی پر سوار (ردیف) تھے۔اس وقت ان کی عمر مبارک 14یا15برس کی تھی (الاصابہ)۔
    تاریخ ابن عساکر کے مطابق جنگ یرموک 15 ہجری میں اس سبطِ رسول سیدنا علی ؓبن ابوالعاصؓنے جام ِشہادت نوش کیا۔
    حضرت امامہ ؓبنت ابوالعاص ؓ سے بھی حضور کو بڑی محبت تھی۔ایک بار شاہ نجاشی نے ایک انگوٹھی آپ کی خدمت میں بطور تحفہ ارسال کی۔ آپ نے فرمایا:
    لا دفعتھا الی احبُّ اہلی الیَّ۔
     ’’یہ انگوٹھی میں اس کودونگا جو مجھے اپنے اہل میںسے سب سے بڑھ کر محبوب ہے ‘‘۔
    صحابہ کرام ؓ  کا خیال تھا کہ شاید حضرت عائشہ صدیقہ ؓ  کو دیں ،لیکن آپ نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ ؓبنت ابوالعاص اموی ؓ کودی۔حضرت فاطمۃالزہراؓ کی وفات کے بعد حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے امامہ ؓ بنت ابوالعاص امویؓ سے نکاح کیا ،حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت امامہ ؓ کانکاح حضرت مغیرہ بن نوفل سے ہوا ۔
    حضرت ابوالعاص امویؓ تھے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور بنو امیہ کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن یہ انکی جہالت ہے یا بنو امیہ سے بغض ۔اس سلسلہ میں وہ ایک حدیث بیان کرتے ہیں :
    فی الحدیث المروی بسند حسن انہ صلی اللہ تعالیٰ وعلیہ وسلم قال شر قبائل العرب بنوامیۃ وبنو حنیفۃ وثقیف۔
    ’’سند حسن کے ساتھ مروی حدیث ہے کہ نبی نے فرمایا کہ بدترین قبائل عرب یہ ہیں :بنوامیہ ،بنو حنیفہ ،ثقیف (تطہیر الجنان واللسان)۔
     درج بالاحدیث کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر مکی رحمہ اللہ ؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
    ’’جواب اس کا یہ ہے کہ اس حدیث سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی نتیجہ نکالنا ،اس نتیجہ نکالنے والے کی جہالت پر اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کو مبادی علوم کی بھی درایت نہیں چہ جائیکہ غوامض علوم کی،کیونکہ اس نتیجہ سے لازم آتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ اور عمر بن عبدالعزیز بھی خلافت کے قابل نہ ہوں اور معاذ اللہ اشرار میں سے ہوجائیں اور یہ اجتماع مسلمین کیخلاف ہے اور صریح الحاد ہے … اس نتیجہ کا نکالنے والا جاہل یا معاند ہے ،جس کے کلام کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ اس کی فہم ناقص ہے اور اس کا کذب ثابت ہے۔ ‘‘(تطہیر الجنان) ۔  
    حقائق آپ نے ملاحظہ فرمالیے اور اگر آپ غور وفکر کریں توآپ کو معلوم ہوگا کہ حضور نے حضرت ابوالعاصؓ کو سیدہ زینب ؓ کا رشتہ دیا۔حضرت ابوالعاص ؓ بنو امیہ سے تھے ، پھر حضور نے حضرت عثمان ؓ کو اپنی 2صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے نکاح میں دیں ،وہ بھی بنوامیہ سے تھے ،اسی طرح حضور کی ایک زوجہ’’ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ سلام اللہ علیہا ‘‘جو حضرت ابوسفیان ؓ کی صاحبزادی تھیں، کا تعلق بھی بنوامیہ سے تھا ۔اگر معترضین کاکہنا صحیح ہے تو ان رشتوں کے بارے میں وہ کیا فرمائیں گے ؟ کہ کیا نعوذباللہ حضور نے اپنے3 صاحبزادیاں ’’اشرار ‘‘میں دیں اور ازواج مطہرات میں شامل حضور کی ایک زوجہ ’’اشرار‘‘ میں سے تھیں؟(نعوذ باللہ منہ واستغفراللہ العظیم )۔
    برا ہو تعصب کا ،کہ بنوامیہ کے تعصب کی وجہ سے محررین کی عقلیں ماری گئیں ،کہ وہ کیا خرافات لکھ رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں ؟
    اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں اصحاب رسول واہل بیت رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سچی محبت نصیب فرمائے ،بے ادبی سے اور بے ادبوں سے بچائے ۔آمین  ۔
    خویش رسول ؐحضرت ابوالعاص امویؓ کی وفات بعض علماء کے نزدیک خلافت ِ صدیق اکبر ؓ میں ذوالحجہ 12ھ میں ہوئی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یوم الیمامہ میں شہید ہوئے (بنات اربعہ )۔
    صحابہ کرامؓ بنوامیہ سے ہوں یا بنوہاشم سے یاکسی دیگر قبائل سے ،جس شخص کو صحبت نبوی ؐ بحالت ایمان نصیب ہوئی وہ انبیاء ؑ کے بعد دنیا کا سب سے افضل واعلیٰ انسان ہے اور دشمن رسولؐ بنوامیہ سے ہو یا بنوہاشم سے ،وہ کائنات کا بدترین شخص ہے۔ فضائل ،قبائل میں نہیں بلکہ صاحب ِ فضلیت اہل ایمان ہیں، وہ جس علاقہ ،جس قریہ ، جس نسل اور جس قوم وقبیلہ سے ہو۔رضی اللّٰہ عنھم اجمعین۔

شیئر: