Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور چین کے درمیان شراکت

راشد بن محمد الفوزان ۔ الریاض
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے چین کے دورے سے سعودی عرب اور چین کے درمیان شراکت کے نئے دور کا آغاز کردیا۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ 20برس سے زیادہ عرصے سے دنیا میں سب سے زیادہ شرح نمو کا ریکارڈ چین ہی نے قائم کررکھا ہے۔ تیز رفتار شرح نمو چین کی پہچان بن گئی ہے۔ چین ایک عشرہ سے زیادہ عرصے تک 10فیصد سے زیادہ شرح نمو حاصل کرتا رہا ہے۔ آجکل اس کی شرح نمو 6تا 7فیصد ہے۔ چین نے غیر متزلز ل سیاسی پالیسیوں کی پہچان بنائی ہے ۔ چین کسی بھی ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرتا۔ مختلف ممالک کی مدد بھی کرتا ہے۔ چین زبردست اقتصادی وسائل کا مالک ہے۔ اس کے پاس قدرتی وسائل بھی ہیں اور افرادی قوت بھی غیر معمولی ہے۔ چین غیر معمولی زر مبادلہ کا بھی مالک ہے۔ امریکی کرنسی نوٹ کا سب سے بڑا خریدا رچین ہے۔ امریکہ کو سب سے زیادہ قرضہ دینے ولا ملک بھی چین ہی ہے۔ یہ 1.1ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا سرمایہ لگائے ہوئے ہے۔ چین ، سعودی عرب سے تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک برس کے دوران مملکت اور چین کے درمیان تجارتی لین دین میں 18 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 50ارب ڈالر سے زیادہ کا کاروبار کیا ۔ توازنِ تجارت کا پلڑا سعودی عرب کے حق میں ہے۔ سعودی عرب انفرادی اور مشترکہ سرمایہ کاری بھی کررہا ہے۔ سابک، آرامکو اور سانوباک سعودی کمپنیاں پیٹرو کیمیکل، پیٹرول اور آئل ریفائنری کے منصوبوں میں سرمایہ لگائے ہوئے ہیں۔ چین کی 150سے زیادہ کمپنیاں بنیادی ڈھانچے کے سعودی منصوبوں میں سرمایہ لگائے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب ، چین میں 3ارب ڈالر سے زیادہ کا سرمایہ لگائے ہوئے ہے اور اس کے 3ہزارطلباءچین میں زیر تعلیم ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ چین کثیر جہتی مقاصد و اہداف کا حامل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی منڈی کیساتھ اقتصادی اور سرمایہ کاری کا پروگرام بیحد اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی وژن کے خالق محمد بن سلمان اپنے ملک کیلئے چین کے دروازے کھولنے کا مشن لیکر بیجنگ پہنچے ہیں۔ یہ چین اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست اور بالواسطہ سرمایہ کاری کا باعث بنے گا۔ سعودی عرب، چین کے تجربات اور امکانات سے فائدہ اٹھائیگا۔ فیکٹریاں لگانے میں معاون بنے گا۔ چین بین الاقوامی اقتصاد کا اہم ستون ہے۔ اسے صنعت اور سرمایہ کاری میں بڑی دسترس حاصل ہے۔ مواصلات کے شعبے میں ”ہواوے“ اس کی روشن مثال ہے۔ اس کمپنی کے بانی نے بی بی سی لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے بجا طور پر چیلنج کیا تھا کہ ہواوے ٹیکنالوجی کے بغیر دنیا کا گزارہ ممکن نہیں۔ ہواوے چین کیلئے قابل فخر وناز سرمایہ ہے۔ یہ ” نئے چین“ کی مشہوری کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ سعودی عرب اپنے مستقبل کے حوالے سے مہم جوئی میں لگا ہوا ہے۔ چین، پاکستان اور ہندوستان سے اپنے یہاں گوناگوں اضافوں کا متلاشی ہے۔ سعودی عرب نے اپنی کھڑکیاں سارے عالم کیلئے کھولدی ہیں۔ جہاں جو کچھ بہتر ہے اسے حاصل کرنے کی تگ و دو کررہا ہے۔ شراکت ، درآمد ، برآمد اور سرمایہ کاری ہر ذریعے سے استفادہ کررہا ہے۔اقتصاد اور دولت کسی ایک گھوڑے پر سواری نہیں کرتی ،اس میں تنوع اور رنگا رنگی مطلوب ہوتی ہے۔ ولی عہد مملکت کے مستقبل کیلئے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: