Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا دور، پرانی فلم۔ کپتان کا امتحان

سیاسی فلم ویسی ہی چل رہی ہے جیسی ماضی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی ، اس مرتبہ ولن کا کردار پیپلز پارٹی کے پاس ہے، مخالفت محض دکھاوا ہے

 

تنویر انجم
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس وقت اندرونی اور بیرونی، دونوں جانب سے مسائل میں گھری ہے۔ جہاں ایک جانب ملک کو معاشی مسائل درپیش ہیں تو اسی دوران سیاسی سطح پر بھی نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کشمکش کی صورت حال جاری ہے بلکہ پڑوسی ملک ہند کے ساتھ کشیدگی میں شدت آ چکی ہے۔ ہند میں ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات سے قبل روایتی طور پر ہندو مسلم، کشمیر اور پاکستان سے روابط جیسے تنازعات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستانی فوج اور سیاست دانوں سمیت تمام طبقات سے پاکستان مخالف بیانات دیے جا رہے ہیں اور اس آگ کی شدت خطے سے باہر دنیا بھر میں محسوس کی جا سکتی ہے، تاہم اس کے برعکس پاکستان کی جانب سے انتہائی مدبرانہ اور تحمل مزاجی کے ساتھ جواب دیا جا رہا ہے۔ حکومت ہو یا فوج، عوام ہوں یا سیاسی جماعتیں، اس وقت پورا پاکستان ہند سے کشیدگی کے معاملے میں ایک پیج پر ہے اور پاکستانی قوم کا یہ اتحاد دنیا میں اپنی مثال آپ ہے کہ ملک کو کبھی کسی قسم کا بیرونی خطرہ درپیش ہو تو تمام سیاسی، مذہبی، لسانی اور معاشرتی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ارض پاک کے دفاع کی خاطر سب ایک مٹھی کے مانند یکجان اور متحد نظر آتے ہیں لہٰذا اس معاملے میں حکومت کسی بھی قسم کی پریشانی کا شکار نہیں ہے کیونکہ اسے روایتی دشمن کے مقابلے پر پورے ملک کی حمایت دستیاب ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو اندرونی طور پر سیاسی معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین اختلافات اور کشمکش دکھائی دیتی ہے، ہم یہ بات پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کسی بھی معاملے میں انتہا پسندی چاہتے ہیں نہ ہی معاملات میں کشیدگی۔ نہایت اعتدال کے ساتھ حکومت اچھے یا برے، جیسے ہی حالات ہوں، اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے اور اس دوران اس کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک کے اقتصادی مسائل حل ہوں اور کرپشن کے خلاف جنگ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے والی جماعت اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔ اس کے لیے وہی پرانا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو معاملات میں الجھا کر رکھا جائے۔  مقدمات، عدالتیں، جیلیں، بیانات اور ملکی حالات، ان موضوعات پر نہ صرف مباحث جاری رہیں گے بلکہ حکومت اور اپوزیشن مصروف بھی رہیں گی اور اس طرح سے حکومت کا آئینی دورانیہ پورا ہو جائے گا۔
کپتان عمران خان اور ان کی ٹیم کو اس وقت2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سخت مخالفت کا سامنا ہے تاہم مبصرین کے مطابق یہ مخالفت محض دکھاوے کے طور پر جاری ہے کیونکہ اپوزیشن جسے انتقام قرار دے رہی ہے، وہ کہیں نظر نہیں آ رہا کہ مخالف پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ ویسا سلوک نہیں ہو رہا جیسا کسی سیاسی مخالف سے ہوتا ہے، جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی ردعمل کے طور پر ایسا رویہ دکھائی نہیں دے رہا جیسا ماضی میں احتجاج یا جلسے جلوسوں کی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ دونوں جانب سے معاملات نہایت خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف اسپتال میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ موجود ہیں تو پارٹی کے شہباز شریف کو ضمانت مل چکی ہے جبکہ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز لندن میں موجود ہیں اور مریم نواز بھی آزاد۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت بھی آزاد ہے تاہم ان کے رہنماؤں کا نیب میں آنا جانا لگا ہے۔ فلم بالکل ویسی ہی چل رہی ہے جیسی ماضی قریب میں مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی مگر اس مرتبہ ولن کا کردار پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو نیب نے گرفتار کرلیا ہے جس پر پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے چکے، اب مزید نہیں دیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت تمام رہنماؤں کی جانب سے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اُدھر جرمنی میں موجود پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کلمہ پڑھ کر یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر دوران انکوائری ہمارے رہنماؤں کی گرفتاری ہو سکتی ہے تو پھر پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں اور خود وزیر اعظم کو بھی گرفتار کیا جائے کہ وہ بھی نیب انکوائری کی زد میں ہیں۔ سندھ اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔ اوپر بیان کی گئی تمام باتیں سیاسی فلم کے ویسے ہی مناظر ہیں جیسے ہم کئی دہائیوں سے دیکھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں۔ اب فلم کے آخری سین کی جانب آتے ہیں، اس میں وزیر اعظم ایک بار پھر اچانک اپنے روایتی بیانیے کو دہراتے ہیں کہ اس ملک میں گرفتاری کے بعد سب منڈیلا بن جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر دو ٹوک انداز میں کہا کہ احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،  اپوزیشن جتنا مرضی شور مچالے ایک ایک کا احتساب ہوگا کیونکہ طاقتور اور کمزور کے احتساب کا ایک جیسا نظام ہونے سے ہی ملک آگے بڑھے گا۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم کو ہر چند روز کے بعد یہ وضاحت کیوں دینا پڑتی ہے۔ اسی دوران مریم نواز نے بدلتے موسم کا حال سناتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ اب ’’فتح کا موسم‘‘ شروع ہو رہا ہے۔ اسپتال میں اپنے والد میاں نواز شریف کی عیادت کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقت بہرحال گزر ہی جاتا ہے پر سچ سامنے آ جاتا ہے۔  فتح کا موسم آنے والا ہے، اور ان شاء اللہ اچھا وقت جلد آئے گا۔ اُدھر آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان آئیں گے تاہم بے وقوفوں کی طرح نہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کو ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد بھی تحریک انصاف ہی کی طرح آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آدھی کابینہ تو وہی ہے جو میرے دور میں تھی، لہٰذا پاکستان جانے کے لیے اس وقت کا سیاسی ماحول میری واپسی کو سپورٹ کرتا ہے، تاہم میں بے وقوفوں کی طرح چھلانگ نہیں لگاؤں گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ معاملات 5 برس تک ایسے ہی چلیں گے کہ حکومت موجودہ اپوزیشن کو ماضی کی یاد دلا کر دھمکاتی رہے گی اور اپوزیشن نیب، جیل اور اسپتالوں کے چکر لگانے میں مصروف رہیں گے، پھر آئندہ انتخابات کے موقع پر نئے کرداروں کے ساتھ نئی فلم بنے گی تاہم اسکرپٹ یہی رہے گا۔ بہرحال امید یہی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت اپنے اعلانات اور دعووں پر پوری اترتی ہے اور اپنے اقتدار کے 5برس کامیابی سے مکمل کرکے ملک سے کرپشن کا خاتمہ، اقتصادی خوشحالی اور قیام امن میں کامیاب ہو گئی تو مستقبل کی راہیں واضح ہو جائیں گی بصورت دیگر محض چہروں اور کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ یہ سیاسی فلم ہمیشہ ایسے ہی چلتی رہے گی۔
مزید پڑھیں:- - -  - - - -پلوامہ حملہ پاکستان نے ہند کو آئینہ دکھادیا

شیئر: