ریاستوں کے مابین تعلقات بالعموم مفادات کے تابع ہوتے مگر اس عمومی اصول کے خلاف کچھ مستثنیات بھی اس دنیامیں نظر آتی ہیں۔ ایساہی کچھ معاملہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان روز اول سے موجود رہا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری یا مسابقت جیسی صورتحال کبھی نظر نہیں آئی ،نہ ہی کوئی موقع ایسا گزرا ہے جہاں باہمی اعتماد میں کمی کا شائبہ بھی نظر آیا ہو۔ سعودی ولی عہد کی شخصیت گذشتہ چند برسوں میں کھل کر سامنے آئی ہے اور انہوں نے خود کو عالمی سطح پر ایسے قائد کے طور پر منوایا ہے جو نہ صرف وژن ،فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت اور اپنے فیصلوں پر کماحقہ عملدرآمد کروانے کی بھر پور طاقت رکھتے ہیں۔ایسی صلاحیت رکھنے والی توانا شخصیت جب خود کو پاکستان کا سفیر کہے تو یقینی طور پر یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے مسائل عالمی سطح پر نہ صرف سنے جائیں بلکہ پاکستان کے ساتھ انصاف بھی ہو۔مملکت سعودی عرب ان دونوں خواص سے مالامال ہے،ایک طرف مملکت کے طول و عرض میں بڑے بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں تو دوسری طرف نوجوان قیادت نہ صرف وژنری ہے بلکہ اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے میںانتہائی مخلص بھی ۔ اس وقت مملکت کی قیادت حالات حاضرہ کے جدید تقاضوں سے پوری طرح واقف حال ،دور جدید کی ضروریات کے مطابق سعودی عرب میں انقلابی اقدامات کررہی ہے تا کہ آنے والے وقت سے ہم آہنگ ہوسکے۔ اسی لئے اپنی معیشت کا دائرہ بڑھاتے ہوئے،سعودی ولی عہد نے مملکت سے باہر سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ دوسر ی طرف پاکستان جو اس وقت شدید ترین مالی بحران کا شکار ہے ،سعودی ولی عہد کا پہلا انتخاب ٹھہرا ہے اور سعودی عرب،پاکستان میں کم و بیش 20بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے جو بتدریج آئندہ 3سے 5برسوں میں پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ یہ سرمایہ کاری آئل ریفائنری ،پیٹرولیم مصنوعات،انرجی،خوراک اور زراعت کی صنعتوں میں کی جائے گی۔ علاوہ ازیں سعودی حکومت،پہلے ہی اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں 3 ارب ڈالر کی خطیر رقم منتقل کر چکا ہے تاکہ پاکستان’’معاشی دیوالیہ پن‘‘ کے بد ترین چھائے خدشات سے محفوظ ہو جائے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب کویہ بات ہضم نہ ہو کہ ایک طرف میں مفادات کی بات کررہا ہوںاور دوسری طرف اس سرمایہ کاری کا ذکر کررہا ہوں جو بذات خودمتضاد بات ہے مگر تنقید سے پہلے ذرا یہ سوچ لیں کہ اس وقت کون سا ایسا ملک ہے جو ان حالات میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ کرے؟لہذا میں اس تنقید کو محض تنقید برائے تنقید سمجھتا ہوں۔ دوسری طرف ہمارا قریبی دوست چین ہے ،جس کی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں کہ چین کی سرمایہ کا ری کامقصد کیا ہے؟یہاں مفادات کا تصور واضح ہے جبکہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری ان شرائط سے پاک نظر آتی ہے۔ایم او یوز پر دستخط کرنے کی تقریب میں سعودی ولی عہدنے جب گذشتہ حکومت کی ،5فیصد شرح نمو کا حوالہ دیا تو ساتھ ہی انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں وزیر اعظم سے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں پاکستان مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا اور ہم سرمایہ کاری کیلئے پاکستان میں ایسی ہی قیادت کے انتظارمیں تھے ،ان الفاظ سے ان کی واضح مراد تھی کہ نئی حکومت شرح نمو میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔بزم یاران میں سعودیوں کی فیاضی مسلمہ ہے اور وہ دوستوں کی مدد میں کسی بخیلی سے کام نہیں لیتے،یہی وجہ ہے جب وزیر اعظم نے سعودی عرب میں ،چھوٹے موٹے مقدمات میںمقید پاکستانیوںکی رہائی سے متعلق،ا نتہائی جذباتی انداز میں بات کی ،تو سعودی ولی عہد نے روایتی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا بلکہ وزیر اعظم کو یقین دہانی کروائی کہ انہیں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھا جائے۔ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے اور سعودی ولی عہد اتنی بڑی بات یونہی نہیں کہہ سکتے،یقینا اس اعلان سے قبل وہ ان محرکات کو ضرور زیر غور لائے ہوں گے،ان ذمہ داریوں کا انہیں بخوبی ادراک ہوگا،جو کسی ملک کے سفیر کی ہوتی ہیں۔ سعودی ولی عہد ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر کے آئے ہیں جب ایک طرف ہندوستان میں انتخابات ہونے والے ہیں اور دوسری طرف حسب روایت پلوامہ میں ایک خود کش حملے کا وقوعہ ہو چکا جس کے متعلق گذشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔جب سعودی ولی عہد اپنے بڑے وفد کے ساتھ ہند پہنچے تو ہندوستانی میڈیا کی یہ بھرپور کوشش رہی کہ کسی طرح ولی عہد یا کم ازکم ان کے وزیر خارجہ ان کے مؤقف کے حق میں کوئی ایک لفظ ہی کہہ دیں۔ آفرین ہے ولی عہد اور ان کے وزیر عادل الجبیر کی معاملہ فہمی کی اور سختی کے ساتھ اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے دورے کا کامیاب رکھنا۔سعودی ولی عہد نے نہ صرف سعودی مؤقف کا انتہائی مؤثر انداز میں اعادہ کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم کسی بھی قسم کی دہشتگردی کیخلاف ہیں مگر بغیر ثبوت نہ تو کسی کو دہشت گرد کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی سہولت کار،اس لئے اگر ہند کے پاس کوئی ٹھوس شواہد ہیں تو ہم ان پر غور کرنے کیلئے تیارہیں۔ جبکہ پاکستان کی گذشتہ حکومتوں کی حالت مدعی سست اور گواہ چست والی رہی ،جس میں دوست ممالک بھی کھل کر سامنے آنے سے گریز کرتے رہے۔ مگر آج صورتحال مکمل طور پر بدلی نظر آتی ہے اور سفیر پاکستان نے اپنے پہلے ہی ٹاسک میں اس کا ثبوت دے دیا کہ سعودی ولی عہد اپنی زبان کاپاس رکھنا جانتے ہیں،سلام سفیر پاکستان۔