جمعرات کو انڈیا نے جمات اسلامی کشمیر پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ سیاسی جماعت متنازع خطے میں عسکریت پسندی کو فروغ دے رہی ہے ۔خبررساں ایجنسی روئٹرز نے ایک پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہیں کہ حالیہ دنوں ایک کریک ڈاؤن کے موقع پر انڈین حکام نے 300 کے قریب جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں یا کارکنان کو گرفتار کیا ہے۔ گذشتہ مہینے 14 فروری کو انڈین فوجیوں پر کیے گئے خود کش حملے کے بعد جمات اسلامی کے کارکنان کی گرفتاریاں سامنے آئی ہیں۔اس حملے کی ذمہ داری کا لعدم تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی جس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔جماعت اسلامی کی تشکیل سنہ 1942 میں ہوئی تھی ، سنہ 1989 میں علیحدگی پسند سیاست کے آغاز سے پہلے یہ جماعت دو دہائیوں سے زیادہ انڈیا کی سیاست کا حصہ رہی۔یہ تیسری دفعہ ہے کہ اس تنظیم پر پابندی عائد ہورہی ہے۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کشمیر کو انڈیا سے الگ کیا جائے۔انڈین وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی انڈیا کے ایک حصے کی علیحدہ ہونے کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے اور اگر اس کی سرگرمیوں کو نہ روکا گیا تو یہ ملک کے لیے درد سر بن سکتا ہے ، اسی لیے حکومت نے جماعت اسلامی کو ’غیر قانونی تنظیم‘ قرار دیا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ اگر جماعت اسلامی کی غیر قانونی سرگرمیوں کو فوری طور پر نہ روکا گیا اور ان کو کنٹرول نہ کیا گیا تو امکان ہے کہ یہ جماعت اپنی منفی سرگرمیاں بڑھا دیں گی اور انڈین حکومت کو غیر مستحکم کر کے انڈیا میں ایک اسلامی ریاست بنا دے گی ‘ ۔ جماعت اسلامی کشمیر کی طرف سے انڈین وزارت داخلہ کی جانب سے عائد کی گئی اس پابندی پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔