پاک ہند کشیدگی ، سفارتی محاذ پر بھی کامیابی کی ضرورت
اب ہو ش کے نا خن لیں اور خطے کے امن کو تہ بالا کرنے کی خود غرضانہ سعی سے باز رہیں
سید شکیل احمد
ہندوستان کے وزیر اعظم نر یندر مو دی نے جو افتاد مچارکھی تھی اس پر پوری پاکستانی قوم کا ایک ہی موقف تھا کہ تھپڑ سے جواب دیا جائے تو ہندکے ہو ش ٹھکانے لگ جائیں گے اور ایسا ہی ہو ا،جنگ کی مسلسل گردان کر نے والے، سبق سکھا دینے کا دعویٰ کر نے والا2 طیا رے تباہ ہو تے ہی جنگ کے خاتمے کی دہائی دینے لگا ۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ ہند تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید کشیدگی نہیں چاہتا، کیونکہ جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سے پورے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سشما سوراج نے کشیدگی کے خاتمے کی خواہش کا اظہار چین میں آر آئی سی (روس، ہند،چین) کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس میں شرکت کے دوران دیا۔
آج پو ری پاکستانی قوم کا جو ش وجذبہ اسی یکجہتی کی مانند ہے جو 1965 میں پایا گیا تھا ، آج پھر ثابت ہو گیا کہ جنگ قوم کے جذبے اور نظریئے لڑتے ہیں، ہتھیا ر نہیں لڑ ا کرتے۔ اگر ہتھیا رو ں کا جنگ میں کما ل ہو تا تو امریکہ کو ویتنا م ، عراق ، شام اور افغانستان میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑ تا ۔جس وقت نریندرمو دی نے جنگ کی فضا قائم کی اسی وقت سے پوری قوم ایک صفحہ پر یکجا ہو گئی اور پوری قوم کا بیک زبان مطالبہ تھا کہ ہند کو سبق سکھا دیا جا ئے۔ معلو م نہیں وزیر اعظم عمران خان جن کو تنہا پر واز کا شوق ہے، وہ کن مصلحتوں کا شکا ر تھے کہ مسلسل تاخیر سے ردعمل دے رہے تھے ۔ انھو ں نے کس مصلحت کے تحت تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کما ر کو نر یندر مو د ی کے پا س بھیجا اور کیا پیغام دے کر بھیجا ، رمیش کما ر نے واپس آکر جو خوش خبری سنا ئی کہ24 گھنٹو ں میں عوام دیکھ لیں گے کہ حالا ت کتنے بدل جائیں گے۔ کیا حالا ت بدلے کہ 24 گھنٹے کے اندر ہند نے آزاد کشمیرکے بالا کو ٹ پر حملہ کیا ۔یہ حملہ کتنا بزدلا نہ تھا کہ ہندوستانی ٹی وی کے ایک پر وگرا م میں ایک ہندوستانی باشندے نے اپنی حکومت کو لتاڑا کے بڑے بڑے دعوے کئے جا تے ہیں مگر کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ پاکستان نے ہندوستانی طیا رہ گرانے کا دعویٰ کیا اس کے ساتھ ہی اس نے پائلٹ کوبھی پیش کر دیا جس کو گرفتارکیا گیا تھا ۔ نریندر مو دی دعویٰ کر تے ہیں کہ ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان میں دہشت گردو ں کے ٹھکا نے کو تباہ کر دیا ۔4 ہزار دہشت گر د ما ر ڈالے کسی ایک دہشت گرد کی لا ش تو دکھا دیں ،پر وگرام کے شریک کا کہنا تھا کہ قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔
ملک کی سلا متی اور یکجہتی کے لیے پوری قوم کو اپنی فوج پر بھروسا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہے ۔جس یکجہتی کی ضرورت ہے اس کا پورا مظاہر ہ ہو رہا ہے ۔مولا نا فضل الر حمان ہو ںیا نواز شریف ، شہبا زشریف یا آصف زرداری ، خورشید شاہ یا اسفند یا ر ولی ، یا سراج الحق ہوں یا پھر عام پاکستانی سب ایک پیچ پر ہیں ۔قومی یکجہتی کی فضا ء قائم کر نا اور اس کو بر قرار رکھنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہو تی ہے تاہم یہ محسوس اب بھی کیا جا رہا ہے کہ موجو دہ حکومت اس بارے میں ون مین ون پا رٹی شو کی مودت میں مبتلاء ہے۔ یہ حال سفارتی سطح ُپر بھی نظر آرہا ہے۔ہندوستانی جارحیت کے بعد سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ فضا بتا رہی ہے کہ خطرہ قریب آ رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت کامیاب سفارت کاری کی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ سے امید باندھ رکھی ہے۔ کہا ہے کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گالیکن اس کی آشیر باد تو بدستورہند کے ساتھ ہے۔ پلوامہ واقعہ پر اس نے ہند کو حملے کیلئے یہ کہہ کر اکسایا کہ اسے اپنے دفاع میں کارروائی کا اختیار ہے۔ بالا کوٹ میںہندوستانی جارحیت پر اپنے تبصرے میں اس نے اسے انسداد دہشت گردی کا آپریشن قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دونوں ملک تحمل سے کام لیں۔ چین نے بھی کہا ہے کہ دونو ں ملک تحمل سے کا م لیں حالانکہ پاکستان کو اس سے بالکل مختلف کی امید تھی اور جب بھی ہند کی طر ف سے جا رحیت ہوئی چین نے کھل کر ساتھ دیا ۔ہند نے کھلی جارحیت کی۔ پاکستان کے اندر آ کر بم گرائے۔ یقینی توقع تھی کہ چین اس جارحیت کی مذمت کرے گا لیکن اس نے دونوں ملکوں کو تحمل کا مشورہ دیکر جارح اور مجروح کو ایک ہی صف میں رکھا۔ تازہ اطلاع ہے کہ ایران نے پاکستانی سرحد سے منسلک اڈوں پر اپنے جنگی طیارے تعینات کر دئیے ہیں۔ ترکی بھی خامو ش ہے ۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ ہماری سفارتی پالیسی اس مرحلے میں کیسے داخل ہوئی۔ سارا الزام وزیر خارجہ اکیلے پر نہیں لگ سکتا۔ حکومت کی مجموعی خارجہ پالیسی ہی کمزور ہے اور کچھ ماضی کا وہ حصہ ہے بھی جو پرویز مشرف نے چھوڑا ۔
نریندر مو دی کو بھی ہو ش کے نا خن لینا چاہئیں کہ وہ پا کستان دشمنی کی آڑ میں عام انتخابات جیتنے کی مساعی ترک کر دیں۔ پا کستان بار بار ثبوت کی بات کر رہا تھا مگر نریندر مو دی کی ایک ہی رٹ تھی کہ پہلے بھی ثبوت دیئے ہیں تو اس میں ہندوستان نے کو نسا تعاون کیا تھا؟اب جبکہ دنیا نے ہندوستانی طیا رے کا انجا م دیکھ لیا توہندوستانی حکومت نے پلواما واقعے کی دستاویز ات پا کستانی حکا م کے حوالے کر دیں جبکہ وزارت خارجہ پا کستان کے ترجما ن نے کہا ہے کہ ڈوزیئر اسلا م آ با د پہنچنے پر اس کا جائزہ لیا جا ئے گا ۔ ادھر ہندوستانی ترجما ن کا کہنا ہے کہ ڈوزیئر میں پلو اما واقعہ کے ذمہ دارو ں سے متعلق تفصیلا ت ہیں۔ پا کستان کے ترجما ن نے کہا ہے کہ ڈوزیئرمیں قابل عمل شواہد ہوئے توپا کستان پیش رفت کر ے گا ۔اگر ہند تھپڑ پڑنے سے اور دونو ں ممالک کو خطر ے میں ڈالنے سے قبل ہی پاکستان کی جانب سے ثبوت کی پیش کش کو تسلیم کر لیتا تو نو بت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن اس کو کیا کہا جا ئے کہ نریندر مو دی کی چائے میں اگر مکھی بھی گر جا ئے تو وہ اس کے ڈانڈے پا کستان سے ملا نا شروع کر دیتے ہیں ۔بہر حال اب ہو ش کے نا خن لیں اور خطے کے امن واما ن کو تہ بالا کرنے کی خود غرضانہ سعی سے باز رہیں۔ یہی خطے کے عوام کے مفاد میں ہے ۔