Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترسیلات بڑھانے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کو مزید سہولیات کا منصوبہ کیا ہے؟

رجسٹرڈ ایکسچینجز کے ذریعے رقوم بھجوانے کے لیے مفصل پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستانی حکام بیرون ملک مقیم شہریوں کو رقوم گھر بھجوانے میں مزید آسانیاں فراہم کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جس کے ذریعے نہ صرف غیرملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا بلکہ اس سے اوورسیز پاکستانی ورکرز کو براہ راست مالی فائدے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
اس منصوبے کے تحت ان اوورسیز پاکستانی ورکرز کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے جو شہروں سے دور کیمپوں میں مقیم ہوتے ہیں، اور عام طور پر رقوم بھجوانے کے جدید منتقلی نظام تک رسائی نہیں کر سکتے۔
پاکستان کا مرکزی بینک ملک کے کرنسی ایکسچینج مراکز کے ساتھ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بات چیت کر رہا ہے، اور اس پر حتمی فیصلے کے بعد مشرق وسطٰی اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانی ورکرز کو رجسٹرڈ ایکسچینجز کے ذریعے رقوم گھر بھجوانے کے لیے مفصل پروگرام پیش کیا جائے گا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ملک بوستان نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ان کی سٹیٹ بینک آف پاکستان سے اس معاملے پر بات چیت ہو رہی ہے، اور اس پر حتمی  فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ مشرق وسطٰی اور دوسرے ممالک میں پاکستانی ورکرز کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ترتیب دیں گے۔   
ملک بوستان نے بتایا کہ ان کی اس بارے میں موجودہ وزیر خارجہ اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ پہلے ہی بات چیت ہو چکی ہے، اور سٹیٹ بینک سے پیشرفت کے بعد وفاقی حکومت سے اس کی اصولی منظوری حاصل کر لی جائے گی۔
منصوبے کی مزید تفصیلات دیتے ہوئے ملک بوستان نے بتایا کہ پاکستان ریمیٹینس انیشیٹیو (پی آر آئی) کے تحت بینکوں کے علاوہ حکومت پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ بڑی کرنسی ایکسچینج کمپنیز کو بھی بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی کے نظام سے منسلک کیا جائے گا۔
’اس منصوبے کی منظوری کے بعد ہم بیرون ملک سے زرمبادلہ پاکستان لانے کا ایک نظام تشکیل دیں گے، جس میں ہم بنیادی طور پر ان ورکرز کو شامل کریں گے جو اپنی رقوم آفیشل چینلز کی بجائے غیر رجسٹرڈ طریقوں جن میں سے حوالہ ہنڈی بھی ایک ہے کے ذریعے پاکستان بھیجتے ہیں۔

ایکسچینج کمپنیز کے مطابق ’منصوبے کے تحت پاکستان میں زرمبادلہ کی ماہانہ ترسیل چار ارب ڈالر تک لے جائی جا سکتی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ملک بوستان نے مزید کہا کہ ’اس میں زیادہ تر وہ ورکرز شامل ہیں جو خلیجی ممالک میں شہروں سے دور کیمپوں میں رہتے ہیں۔ یہ ورکرز زیادہ رقوم نہیں بھیجتے بلکہ ایک وقت میں چند سو ڈالرز ہی پاکستان بھیجتے ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اپنے ذاتی ذرائع استعمال کرتے ہیں رقم کی ترسیل کے لیے۔ ہم ان کے لیے انعامات مقرر کریں گے اور ان کے بھیجے جانے والے پیسوں کی شرح کے حساب سے انہیں مالی فوائد بھی دیں گے۔‘
’ہم متعلقہ ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے نیٹ ورک بنائیں گے اور ان ورکرز کو اس سے مستقل طور پر منسلک کریں گے۔‘
ترسیلات زر ماہانہ چار ارب ڈالر تک بڑھانے کا امکان
ملک بوستان نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں زرمبادلہ کی ماہانہ ترسیل چار ارب ڈالر تک لے جائی جا سکتی ہے، جو اس وقت تین اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک ہے۔ اسی طرح اس سے رقوم کی سالانہ ترسیل بھی بڑھے گی۔
’رواں مالی سال میں 35 ارب ڈالر غیرملکی زرمبادلہ آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگر ہم  پی آر آئی کے ذریعے یہ نظام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ترسیلات بآسانی چار ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔‘

ملک بوستان کے مطابق سٹیٹ بینک سے پیشرفت کے بعد وفاقی حکومت سے منظوری حاصل کر لی جائے گی۔ (فوٹو: اے پی پی)

ان تجاویز پر غور رواں سال اگست میں پاکستان کی وفاقی کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے دو اہم فیصلوں کی روشنی میں ہو رہا ہے، جن کے ذریعے حکومت نے ایک مخصوص حد سے زیادہ ترسیلات حاصل کرنے والے بینکوں کے ٹیلی گراف چارجز کو فی سو ڈالر پر 35 سعودی ریال کے برابر رقم تک بڑھا دیا ہے اور ڈالرانٹر بینک تجارت کے لیے فراہم کرنے پر ایکسچینج کمپنیوں کا فی ڈالر منافع ایک سے پانچ روپے تک کر دیا ہے۔
پی آر آئی سکیم کیا ہے؟
پاکستان ریمیٹینس انیشیٹیو (پی آر آئی) سال 2009 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت خزانہ اور وزارت اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافے اور رقوم بھیجنے اور وصول کرنے والوں کو اخراجات سے بچانا تھا۔  
اس سکیم کے تحت پاکستانی بینکوں اور بین الااقوامی ایکسچینج کمپنیوں کو ترسیلات زر کے نظام سے منسلک کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی ایکسچینج کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی اس سکیم میں شامل کر کے ترسیلات زر بڑھانے کے لیے مزید موثر کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ملک بوستان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وہ ترسیلات زر کے فروغ میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں، بلکہ ستمبر 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد جب امریکی حکومت کی طرف سے ترسیلات زر کے نظام کو ریگولرائز کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ تو انہوں نے غیرملکی ایکسچینج کمپنیوں کو پاکستان لا کر اس نظام کی تشکیل کی تھی۔ جس کے نتیجے میں ویسٹرن یونین، ایکسپریس اور منی گرام سمیت 30 بین الااقوامی ایکسچینج کمپنیاں پاکستان آئی تھیں۔

شیئر: