Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند کے ارادے اور انجانا خوف

وہ ہم سے لڑتے ہوئے خوف کھاتا ہے، ہربار مسلح ہوکر ہمیں للکار تاضرور ہے لیکن پھر خود ہی اُلٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے
ڈاکٹر منصورنورانی
گذشتہ 20برسوں میں یہ کوئی پہلی بارنہیںہوا ہے کہ پاکستان اور ہند کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوچکی ہوںاور ماحول اتنا خراب ہوچکا ہو کہ ایسالگے کہ باقاعدہ جنگ ابھی ہوئی کہ تب ہوئی۔اِس سے پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ ہند نے بہت کوشش کی کہ اُسکی اپنی طرف سے لگائے گئے یکطرفہ بے بنیاد الزامات کے تحت پاکستان کو سبق سکھایاجائے اور کھلم کھلا اِس کااعلان بھی کیا مگر وہ سرحدوں پر بلااشتعال کاروائیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔کوئی نہ کوئی انجانا خوف اور ڈر اُس کے ارادوں کو پامال کرتا رہا، اُسکے قدم ڈگمگاتا رہا۔یہ انجانا خوف کیاتھا اور کیا ہے۔صرف اور صرف ہمارابحیثیت ایک ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کے نقشہ پر موجود ہونا۔ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ ہند ہم پر اب تک چڑھائی نہ کر چکاہوتا۔ہم رقبہ،عسکری، معاشی اور اقتصادی طور پر ہند کے مقابلے میں بہت چھوٹی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہند ہماری نسبت ایک بہت بڑی معاشی قوت بھی ہے۔اِسی وجہ سے دنیا کا جھکاؤ بڑی حد تک اس کے حق میں جاتا ہے۔ دنیا اُسے ایک بڑی معیشت کے طور پر جانتی اور پہچانتی ہے۔ہماری حیثیت اُس کے مقابلے میں ابھی بہت کم ہے۔ہمیں اُس کے برابر پہنچنے میں ابھی بہت وقت درکار ہے مگر خدا کے فضل و کرم سے اِس کے باوجود وہ ہم سے لڑتے ہوئے خوف کھاتا ہے۔وہ ہربار مسلح ہوکر اپنے بدنیت عزائم کے ساتھ ہمیں للکار تاضرور ہے لیکن پھر خود ہی اُلٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے۔ایسا ہی کچھ ہم نے 2002ء میں بھی دیکھا تھاجب دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف مکمل صف آراء ہوچکی تھیںاور ایک بھر پورجنگ بظاہر ناگزیر دکھائی دے رہی تھی مگر پھر ہماری مسلمہ ایٹمی حیثیت نے اُس کے قدم لڑکھڑادیئے۔وہ چند لمحوں کیلئے بھول جاتا ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح دنیا کی ایک ایٹمی قوت ہیں اور بلاوجہ ہم سے محاذآرائی پر آمادہ ہوجاتا ہے پھر اچانک اُسے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بے شک اُس کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اُس کی ایٹمی صلاحیت کسی بھی لحاظ سے کسی سے کم نہیں اور جس سے سرٹکرانے کا مطلب خود اُس کی اپنی موت ہے۔پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے میں ہمارے جن محسنوں کا ہم پر احسان رہا ہے ہمیں آج اِس موقع پر اُنہیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے۔سب سے پہلے محترم ذوالفقار علی بھٹوجنہوں نے 1974ء میں ہند کی جانب سے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد یہ اعلان کرڈالا کہ اب ہم بھی خود کو ایٹمی قوت بنائیں گیخواہ اِس کیلئے ہمیں گھاس ہی کھانا کیوں نہ پڑے۔ 1974ء میں ہم سب جانتے ہیں ہمارے حالات کیسے تھے۔ ہمارا ملک ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں دولخت ہوچکا تھا۔اندرونی او ر بیرونی لڑائی کے باعث ہماری معیشت دگر گوں ہوچکی تھی۔ نفسیاتی طور پر ہماری قوم انتہائی دباؤ کا شکار تھی۔ وہ مایوسیوں او ر نااُمیدیوں کے دلدل میں دھنس چکی تھی۔آدھا ملک گنوادینے کے احساس نے ہمیں شدید صدمے سے دوچار کردیا تھا۔ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ایسے میں بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے اِس قوم کو دوبارہ کھڑا کیا۔ قطع نظر اِس کے کہ سقوط ڈھاکا کے پیچھے کارفرما عوامل میںہمارے اپنے کن کن لوگوں کا ہاتھ تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بہرحال ایک مشکل وقت میں قوم کو سہارا دیا۔اُسے حوصلہ دیا اور اُسے مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی جانب رواں دواں کیا۔دیکھاجائے تو یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ اُس وقت کے ہمارے کسی رہنما میں یہ صلاحیت اور ہمت نہیں تھی کہ اِس مشکل اور کٹھن وقت میں صدمے سے دوچار قوم کا ہاتھ تھامے۔ محترم ذوالفقار علی بھٹو نے اِس انتہائی مشکل کام کا بیڑہ اُٹھایا اور پھر اُسے کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار بھی کیا۔اُنہوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں ایک ڈی مورالائزڈ قوم کو باوقار اور با ہمت قوم بنادیا۔اُنہوں نے پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرکے اسلامی دنیا میں پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کروایااور پھر چند سال میں اُس ایٹمی پرگرام کی داغ بیل ڈالی جس نے آگے جاکر اُسے پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کا درجہ دلوادیا۔یہ کام کوئی اتنا آسان نہیں تھا۔ ہمارے عالمی دشمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان یہ مقام حاصل کرلے۔بھٹو صاحب جانتے تھے کہ اِس کام کے کرنے سے کون کون سا ملک اُن سے ناراض اور خفا ہوجائے گا اوراِ س کا خمیازہ بھی اُنہیں بھگتنا پڑیگا لیکن اُنہوں نے پھربھی یہ کام کردکھایا۔
اِس کام کو شروع کرنے کیلئے اُنہوں نے جس شخص کو سب سے پہلے آمادہ کیا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ جو اُس وقت ہالینڈ میں ملازمت کررہے تھے۔ اُنہیں واپس آکر یہاں اِس منصوبے پر کام کرنے کیلئے بھٹو صاحب ہی نے رضامند کیاتھا اور یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہی تھے جنہوں نے اِس کا کام میں بھٹو صاحب کا مکمل ساتھ نبھایا ۔وہ ایک ایسے مشن پر جت گئے جو بظاہر اُس وقت ایک بہت ہی مشکل اور ناممکن دکھائی دیتا تھامگر اللہ تعالیٰ کی مدد اورفضل وکرم سے یہ مشن بالآخر 1998ء میں پورا ہوا۔1998ء میں بھٹو صاحب گرچہ اِسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے زندہ نہیں رہے تھے لیکن جب اُس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے تمام پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست کادرجہ دلوانے کیلئے ایک ہی جست میں 6نیوکلیئر دھماکے کرڈالے تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہمارے لوگوں نے اِس اہم کام کے روح ِ رواں کے طور پر یاد رکھا۔ہماری ایٹمی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی ہمارے اِن 3محسنوں کاذکر ضرور آئے گا۔سیاسی مخالفت سے قطع نظر یہ 3بڑے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اِس ملک اور قوم کی خاطر اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔ تمام خدشات اور خطرات کے باوجود اُنہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔ وہ اِس جرم کی پاداش میں نہ صرف اپنے اقتدار سے محروم کردئیے گئے بلکہ نشان عبرت بھی بنادئیے گئے ۔ہند میں وہاں کے لوگوں نے اپنے ایسے ہی محسن کو عزت وقار سے نوازا ۔ باوجوہ کہ وہ ایک مسلمان شخص تھا لیکن اُنہوں نے اُسے اپنے ملک کا صدر بھی بنوادیا۔دوسری جانب ہم ہیں کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنہوں نے ایک مشکل اورکٹھن وقت میں یہ کام شروع کیاپھانسی پرلٹکادیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ریڈیو اور ٹی وی پر ساری قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔
 

شیئر: