Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس نے رشتے کے خاتمے کو تقدیر کا فیصلہ جان کر قبول کر لیا

اُم مزمل۔جدہ
    ہاروت نے موسیٰ کے پروگرام کے بارے میں سنا تو کچھ حیران ہوا ،کہا اتنی جلدی تم سے ملاقات متوقع نہیں تھی لیکن خوشی بہت ہے کہ تم چند دن ہمارے پاس گزارسکوگے اور یہی کافی تھا کہ گھر والوں کو بھی اس نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا کہ وہ ایک مشن کی تکمیل کے سلسلے میں یہاں آیا تھا اور گھر والے اور دوست یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اچانک چھٹی مل جانے پر گھر آگیا ہے۔ اس لئے دوستوں نے کہا یہ تو اچھا ہوا، اب ہم سب ہی عمر بھائی کی شادی کی تقریبات کو خوب انجوائے کریں گے۔
    موسیٰ کو کتنی خواہش تھی کہ وہ اسی جگہ پر اپنی پسند کو تلاش کرے جہاں اسکی پہلی ملاقات ہوئی تھی لیکن اب معلوم نہیں تھا کہ جب بھی محکمے کی طرف سے بلاوہ آئے گاتو اسے جانا ہوگا اور جتنا بھی کام تکمیل کو پہنچا ہوگا ،وہاں رپورٹ کرنی ہوگی ۔اسے دراصل اسٹریٹ کرائم کی آڑ میں فساد کروانے والوں کی بابت معلومات کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
    عائشہ نے اپنی ذاتی زندگی کے ایک اہم فیصلے کو جس طرح بزرگوں کی خوشی جانا تھا ،اسی طرح اس رشتے کا ختم ہوجانا بھی تقدیر کا فیصلہ جان کر قبول کر لیا تھا ۔نہ کسی سے شکوہ تھا، نہ ہی کوئی ملال کہ ایسا دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ دادی جان کے ساتھ عمر بھائی کی شادی میں جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ جنہوں نے بڑے بھائی کی طرح خیال رکھا ۔دونوں خاندانوں کی دہائی سے ایک ہی آبائی گاﺅں سے وابستہ رہے۔حتیٰ کہ رشتہ دار کی طرح ہی بن گئے۔ان کی خوشی میں سب ہی خوش تھے کیونکہ ایسے انسان کو سب ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کے کام آنا ہوتا ہے۔ کہیں یہ کام دفتری نوعیت کا ہوتا ہے، کہیں اخلاقی اور مالی نوعیت کا۔اس کا انحصار بہرحال مختلف ہوتا ہے لیکن لوگوں سے دعائیں لینے کا سبب بنتا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ ہر ایک دور دراز کے جان پہچان والوں نے بھی دور کا سفر اختیار کیا تھا کہ عمر کی شادی میں شرکت اہم ہے کہ وہ ہر ایک کی خوشی کے لئے اپنی سی کوشش میں لگا رہتا ہے تو اوروں کی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنی خوشی کے اس موقع پر سب کو موجود پائے۔
    ہاروت کے چھوٹے بھائی کو کسی نے اپنی دقیق کتاب تھما دی تھی ۔اب وہ ٹرین میں اسی کی ورق گردانی کر رہا تھا اور اسی میں سے کوئی پیراگراف پڑھ کر حاضرین سے اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کے جوابات پوچھ رہا تھا۔کچھ نے تو سنی ان سنی کی۔ کسی نے واقعی ارد گرد کے نظاروں میں کھوئے ہونے کی وجہ سے اس کی بات ہی نہ سن پائے اور جو اس کے اتنے قریب بیٹھے تھے کہ اگر وہ جواب نہ دیتے تو وہ ہاتھ ہلا جلا کر انہیں متوجہ کرتا اور اپنا جواب طلب کرتا لیکن یہ بھی اچھا ہی تھا کہ امجد نے اس کتاب کی ورق گردانی کر رکھی تھی۔ جب طویل سوال پوچھا گیا تو وہ اس کا جواب اسی کتاب سے بتانے کی قابلیت رکھتے تھے ۔وہ کہہ رہا تھاکہ ارسطو نے اگرچہ چند نثر پاروں مثلاً سقراط کے مکالمات کو بھی شاعری قرار دیا ہے لیکن بعد میں اس فکر کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ کسی نثر پارے کو اپنی تنقید کا موضوع نہیںبنایا۔ اس کی وجہ وہ حاضرین سے سننا چاہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیاکہ اس کا اگلا صفحہ پڑھ لو ،جواب مل جاے گا ۔
     امجد کی اس بات پر یوسف نے کہاکہ اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ جناب نے اب تک جتنے بھی تعلیمی مدارج طے کئے ہیں، ان میں سوالوں کے جوابات کو صفحہ نمبر کے حساب سے ذہین نشین کیا ہے ۔اسی کو دراصل رٹا لگاناکہتے ہیں کہ جوابات یاد ہیں مگر ان کے معنی معلوم نہیں۔
     عمر کی شادی ایک ایسی تقریب کا روپ دھار گئی تھی جہاں لوگوں کی آپس میں ملاقات کا سلسلہ بن گیا تھا۔ سب اس موقع پر اپنی اپنی کہے جارہے تھے ۔دراصل کوئی اتنے ہجوم میں کچھ نہیں سن پارہا تھا لیکن ایسے میں ہاروت کے قریب ہی موجود موسیٰ نے کہا کہ ” مجھے یقین ہے کہ عائشہ یہیں کہیں موجود ہے اس کی خبر مجھے یہاں کی فضا کی خوشبو دے رہی ہے۔“
    ٭٭ جاننا چاہئے کہ انسان جیسا ظن رکھتا ہے، اس کے ساتھ قدرت ویسا ہی معاملہ کرتی ہے۔
 

شیئر: