مرد و عورت دونوں پر طلاق کے بھیانک اثرات
افسوس ایشیائی ممالک میں رشتوں کی دھجیاں اڑائی جا تی ہیں ،میڈیا بھی شا ذو نادر ہی کچھ مثبت دکھا دیتا ہے، نئی نئی کہا نیاں رشتوں کو مزید الجھا رہی ہیں
تسنیم امجد ۔ ریاض
ر ضیہ بولی مجھے وہ دن نہیں بھو لتا جب اماں صبح ہی صبح آئیں اور ڈیو ڑ ھی میں ہی رکھی چار پائی پر بیٹھ گئیں۔ان کی سانس پھول رہی تھی ۔میں نے جلدی سے انہیں پانی پلایا اور پریشانی کی وجہ دریافت کی ۔انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ قاسم نے مجھ سے گذ شتہ تین ہفتے سے بات نہیں کی ۔پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہو گئی جو اسے بری لگی ۔مجھے بتا دے تو یہ خا موشی تو ٹو ٹے نا ۔آ خر میں اس کی وہی ما ں ہوں جس کے بغیر وہ ایک پل بھی نہ رہتا تھا ۔میں نے تو اس کی بیوی کو بھی کچھ نہیں کہا ۔اسے تو میرا وجود ہی کھٹکتا ہے۔الگ رہنے کا شوق ہے اسے ۔اکثر مجھے ٹو کتی رہتی ہے کہ آپ اپنی چیزیں ادھر ادھر نہ رکھا کریں ۔میں تو بہت خیال کرتی ہوں۔اپنی ہر شے سمیٹے رکھتی ہوں ۔کبھی کبھی دوا کی کوئی شیشی ادھر ادھر رہ جا تی ہے ۔ارے بھئی الگ رہ لو ۔میں نے تو کبھی نہیں روکا ۔شاید قاسم ہی نہیں مانا۔اب اس پر دباﺅزیادہ ہو گا ۔میں نے انہیں تسلی دی ۔جب سے بھابی لائے تھے یہ حالات ایسے ہی تھے ۔اماں کا جینا مشکل ہو چکا تھا ۔شام کو میں اماں کو خود چھو ڑنے گئی۔بھیا اور بھابی گھر نہ تھے ۔اماں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر گھر لوٹ آئی۔مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری ان سے آ خری ملاقات ہے۔رات گیارہ بجے اطلاع ملی کہ اماں فوت ہو گئیں۔دن بھر کی باتیں اور ان کا آ نسو ﺅں سے تر چہرہ میری نظروں میں گھوم گیا۔ٹینشن نے انہیں جینے نہ دیا ۔میں تو تب سے ہی ایک کرب سے گزر رہی ہوں ۔ساتھ گزارا وقت سب بھول گیا بس وہ آ خری ملاقات ہی یاد ہے جو پل پل تڑ پاتی ہے ۔
ر ضیہ یہ سب ایک ہی سا نس میں بول گئی ۔ہم نے اس کے آ نسو پو نچھتے ہوئے اسے سمجھایا کہ اماں کو تمھارے رونے سے تکلیف ہوتی ہو گی دعائیں کیا کرو ان کے لئے۔انہیں ان کی ضرورت ہے ۔کہنے لگی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو ئی آگے بھی سنئے۔قا سم کو ان کی وفات کے بعد اب ایک چپ سی لگ گئی ہے ۔کسی سے بات نہیں کرتا ۔خلا ﺅ ں میں گھو رتا رہتا ہے ۔بھابی مجھ سے شکایت کرتی ہے لیکن میں بھلا کیا کر سکتی ہوں ،اسے یہ سمجھنا چا ہئے کہ اپنے کئے کی سزا تو بھگتنا پڑے گی۔اماں کوجس کرب میں انہوں نے رکھا اس کے لئے اللہ کا حساب کافی ہے ۔
گز شتہ ہفتے قاسم بھائی اچانک آ ئے اور بولے آپا میں نے اماں کے ساتھ اچھا نہیں کیا (اسے شاید یہ معلوم نہ تھا کہ مجھے سب معلوم ہے) میرا ضمیر مجھے ہر لمحے اسی ا حساس سے مارتا ہے ،کاش میں عقل سے کام لیتا ۔بظاہر تو اماں بیمار بھی نہ تھیں۔ا چھی بھلی تھیں ۔مجھے تو یقین نہیں آتا کہ وہ اس طرح رو ٹھ کر چلی جا ئیں گی اور میری خاموشی کا مجھ سے اس طر ح بد لہ لیں گی ۔میں نے اسے سب بات بتاتے ہوئے ان کے ا حساسات اس تک پہنچا ئے تو وہ تڑپ ا ٹھا ۔بچو ں کی طرح بلک بلک کر رو یا ۔چندد ن بعد اطلاع دی کہ وہ سعودی عرب جا رہا ہے ۔میں نے ملنا چا ہا تو بو لا میں اس وقت کرا چی میں ہوں اور فلا ئٹ ایک گھنٹے بعد ہے ۔یہ بتا کر وہ روتے ہوئے بولی کہ بھائی ہے نا اس لئے تڑ پتی ہوں اس نے تب سے رابطہ بھی نہیں کیا ۔بھابی کو تو وہ اس کے میکے چھوڑ گیا تھا ۔اس سے بھی رابطہ نہیں ہے ۔ایک سال ہونے کو ہے ۔اس کی خبر نہیں ہے ۔کہاں سے معلوم کریں کس شہر میں ہے ؟ زندگی ایسے ہو چکی ہے کہ ،
کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں
بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آ نکھوں میں
اجالا ہو تو ہم آ نکھیں جھپکتے رہتے ہیں
قارئین ! رشتوں کی یہ گتھیاں کچھ ایسی الجھ چکی ہیں کہ ان کو کوئی سلجھانا ہی نہیں چا ہتا ۔جبکہ ان کا الجھاﺅ کچھ حقیقت نہیں رکھتا ۔سوچ و شعور کے بھنور ہیں یہ سارے ۔اکثر مائیں اپنے بیٹوں کی شادیاں اسی خوف سے نہیں کرتیںکہ کہیں بہو آ کر بیٹا چھین نہ لے ۔آنے والیاں نہ جانے کیا جادو کرتی ہیں کہ بر سوں کا رشتہ ڈ گمگا جاتا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ عورت ہر عمر میں تحفظِ ذات کے لئے کو شاں رہتی ہے ۔ساس اور بہو کی
سو چیں اسی کے گرد گھو متی ہیں۔عورت کے ان دونوں رو یوں پر بے شمار تبصرے ہوئے اور لکھا گیا لیکن کچھ ا ثر نہیں ہوا ۔اس سلسلے میں بیٹوں کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں متوازن راستہ ا ختیار کرنا چا ہئے۔ترازو کو متوازن رکھنا ان کے ہاتھ میں ہے ۔بد گمانی کا بیج ان کی طرف سے ہی بویا جاتا ہے ۔ماں اور بیوی دو نوں ہی اہم رشتے ہیں ۔شادی کے بعد وہ ایسے رو ئیے رکھیں کہ ماں کی محبت میں کوئی کمی نہ آئے ۔وہ عمر کے اس حصے میں اتنی ہمت نہیں رکھتی کہ تبدیلی کو سہہ جائے ۔ورنہ یہ رہے گا ،
غلط فہمی نے با توں کو بڑ ھا ڈالا یو نہی ورنہ
کہا کچھ تھا ،وہ کچھ سمجھا ،مجھے کچھ اور کہنا تھا
افسوس ایشیائی ممالک میں ان رشتوں کی دھجیاں اڑائی جا تی ہیں ۔میڈیا بھی شا ذو نادر ہی کچھ مثبت دکھا دیتا ہے ورنہ نئی نئی کہا نیاں انہیں مزید الجھا رہی ہیں۔ڈیجیٹل ذرائع کا غلط استعمال ہو گیا ہے۔ زندگی کے ساتھی کا چناﺅ بھی اس سے ہونے لگا ہے ۔اس سے خاندانی زندگیاں مزید داﺅ پر لگ گئی ہیں ۔ طلاقوں کی شرح میں اسی سے اضا فہ ہوا ہے ۔”تو نہیں اور سہی ،اور نہیں اور سہی ،، اب لڑ کے اور لڑ کیوں کی سوچ ہو چکی ہے ۔روا ئتی انداز ہی میں مزہ تھا ۔اس سلسلے میں ماﺅں کی اب یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ لڑ کوں کی تر بیت بھی بدلتے رحجان کے مطابق کریں ۔انہیں ازدواجی زندگی گزارنے کے ڈھنگ سمجھائیں ۔ذہنی ہم آ ہنگی ضروری نہیں کہ ہو لیکن اس کی کوشش ہو نی چا ہئے ۔ا خلاق و کردار کی صفات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس راستے کو سہل بنایا جا سکتا ہے ۔ایسی لڑکیوں کو بھی لفٹ نہ کر وائیں جو ایسا مزاج رکھتی ہیں ۔شوہر اور بیوی بدلنا کو ئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں ۔اس کے اثرات بہت بھیانک ہیں ۔طلاق کے ا ثرات سے عورت اور مرد دونوں ہی متا ثر ہوتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭