آج مصیبت اور پریشانی ہر طرف سے منہ کھولے ہمیں ڈسنے میں لگی ہیں،اگر ہم غیبت کے اس مرض سے نجات پالیں تو یقینا بہت سے عوارض سے نجات پالیں گے
زبیر پٹیل ۔ جدہ
معاشرے میں ایک” زہر“آج کل اتنا سرایت کر گیا ہے کہ آپ سامنے تو کسی کی بھی تعریف کرتے ہیں مگر جیسے ہی وہ شخص نظروں سے اوجھل ہوتا ہے اس میں کیڑے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ جسے ”غیبت“ کہا جاتا ہے۔یہی غیبت عوام انتخابات کے بعد اپنے ان لیڈروں کی کرتے ہیں جنہیں وہ ووٹ دیکر کامیابی دلواتے ہیں۔ یہی عوام جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ان لیڈروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور لیڈرز بھی عوام کو چاند اور تارے توڑ کر زمین پر لانے کی باتیں کرکے شیشے میں اتارتے ہیں۔ عوام انکے ساتھ ہنسی خوشی سیلفیاں تک بنواتے ہیں مگر منتخب ہونے پریہ لیڈر اڑن چھو ہوجاتے ہیں اور ٹھیک 5سال بعد پھر عوام کو دھوکہ دینے پہنچ جاتے ہیں تب انکے ”دیدار“ دکھیارے عوام کو نصیب ہوتے ہیں۔
غیبت کا زہر وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم اخلاقی طور پر اس زہر کے زیر تسلط آچکے ہیں۔اسکی وجہ شاید اخلاقی پستیوں میں ہمارا گرنا ہے۔ آج مصیبت اور پریشانی ہر طرف سے منہ کھولے ہمیں ڈسنے میں لگی ہیں۔اگر ہم غیبت کے اس مرض سے نجات پالیں تو یقینا بہت سے عوارض سے نجات پالیں گے۔ نیز مصیبت اور پریشانیاں بھی دور ہوجائیں گی۔ ہمارا مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہم کسی بھی صحیح بات کو ماننے سے کتراتے ہیں کیونکہ ہم مکمل انسان نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے ہمارے اردگر د ہر شخص صبح سے شام غیبت کے زہر میں مبتلا دکھائی دیگا لیکن احساس کسی کو نہیں حالانکہ ہمارے مذہب میں کہا گیا ہے کہ غیبت کرنا ایسا ہے جیسے ہم اپنے کسی بھائی کا گوشت کھا رہے ہوں لیکن پھر بھی ہم اس حوالے سے باز نہیں آتے۔