ایکواڈور کی وکی لیکس کے بانی کو سفارتخانے سے ”نکالنے کی تیاری“
ایکواڈور حکومت وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کولندن میں قائم اپنے سفارت خانے سے’چندگھنٹوں اور دنوں کے اندر اندر‘ بے دخل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے وکی لیکس کے ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’ ایکواڈور حکومت کے اعلیٰ سطح ذرائع نے وکی لیکس کو بتایا ہے کہ جولین اسانج کو "آئی این اے پیپرز آف شور اسکینڈل" کا بہانہ بناکرگھنٹوں اوردنوں کے اندر اندر بے دخل کردیاجائے گا اور برطانیہ کے ساتھ ان کی گرفتاری کے حوالے سے معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ ‘
آئی این اے پیپرز کیا ہیں؟
آئی این اے پیپرز ان دستاویزات کا پلندہ ہیں جورواں سال فروری میں منظر عام پر آئیں جن میں ایکواڈور کے صدر لینن مورینو کو کرپشن میں ملوث ظاہر کیاگیا تھا۔ ان دستاویزات میں مورینو کے بھائی پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
26مارچ کو وکی لیکس کے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر ایک ٹویٹ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ایکواڈور کانگریس صدر مورینو کے خلاف آئی این اے پیپرز لیک میں سامنے آنے والے کرپشن کے الزامات پرتحقیقات کررہی ہے۔
ٹویٹ میں کہاگیاتھا کہ ’ایکواڈور کے صدر مورینو کے خلاف ان کے آئی فون ( وٹس ایپ ٹیلی گرام ) اور جی میل سے مبینہ طور پر لیک ہونے والے مواد کے شائع ہونے کے بعد کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کردیاگیا ہے۔ ‘
وکی لیکس کی طرف سے جاری پیغام مورینو کے اس بیان کے دو دن بعد سامنے آیا ہے جس میں اسانج پر اپنی سیاسی پناہ کے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا الزام عائد کیاگیاتھا۔
ایکواڈور کے کئی ریڈیو سٹیشنز کو دیے گئے انٹرویوز میں مورینو نے کہاتھا کہ’ اسانج نے کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو ہم نے ان سے اور ان کی قانونی ٹیم کے ساتھ کیاتھا۔ ‘
’ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہی بولنے کی آزادی نہیں، اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کرسکتے لیکن معاہدے کے مطابق جھوٹ نہیں بول سکتے کسی کے اکاو¿نٹس ہیک کرنا اور ذاتی فون کالز ریکارڈ کرنا دور کی بات ہیں۔ ‘
ایکواڈور نے شبہ ظاہر کیا کہ ’ وکی لیکس حالیہ دنوں میں مورینو کی ذاتی تصاویر شیئر کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ ‘
یاد رہے کہ اسانج ریپ کے الزام میں سویڈن حوالگی اور گرفتاری سے بچنے کیلئے 2012 سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم ہیں۔
سویڈن کی عدالت اسانج کے خلاف تحقیقات ختم کرچکی ہے لیکن برطانوی حکام یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ آسٹریلوی شہری کو اس وقت گرفتار کرلیں گے جب وہ سفارت خانہ چھوڑ یں گے کیونکہ انہوں نے فرار ہوکر اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ ‘
اسانج کا کہناہے کہ انھیں ڈرہے کہ اگر انھیں سویڈن بھیج دیا گیا تو وہاں سے انھیں امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا جہاں ان پر افغانستان اور عراق میں جنگوں سے متعلق حکومتی خفیہ دستاویزات افشا کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
اسانج نے اکتوبر میں ایکواڈور حکومت کے خلاف باہر کی دنیا تک رسائی محدود کرکے ’بنیادی حقوق‘ کی پامالی پر مقدمہ دائر کیاتھا۔
ایکواڈور کی حکومت نے ان پرایکواڈور کی خارجہ پالیسیوں میں مداخلت نہ کرنے کے ’تحریری وعدے ‘ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔