سوڈان کی تحریک بیداری کے پیچھے کیا ہے؟
جمعرات 11 اپریل 2019 3:00
عثمان میر غنی۔ الشرق الاوسط
مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ملک کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ دسمبر 2018 کو شروع ہونے والی سوڈانی تحریک بیداری ’انتفاضہ‘ نہ تو ’عرب بہار‘ کے زیر عنوان برپا ہونے والے کسی انقلاب کا عکس ہے۔ اور نہ ہی کسی خارجی تحریک کی نقالی ہے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کی غیر معمولی کوریج سے بھڑکنے والا ’چینلز‘ کا انقلاب ہے۔ بعض لوگ سوڈان کی تحریک بیداری کو کسی نہ کسی تحریک یا انقلاب سے جوڑنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسا خلاصہ پیش کررہے ہیں جو کسی بھی حالت میں سوڈان کے منظر نامے سے میل نہیں کھاتا اور نہ ہی سوڈانی تحریک بیداری کے ساتھ انصاف کا معاملہ کررہا ہے۔
سوڈان میں آنے والے انقلاب کے حالات مختلف ہیں۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں اسلام پسندوں نے 30برس تک حکومت کرکے ملک کو بدترین نتائج سے دوچار کیا۔ اسلام پسندوں کا اقتدار بدترین تجربہ تھا۔ ناکامی انتہا درجے کی تھی۔ منظم طریقے سے ملک کو تباہ کیا گیا۔ مسائل کے غلط حل دیے گئے۔ تباہ کن بدعنوانی کا راج قائم ہوا۔ غیر معمولی طریقے سے مخالفین کی بیخ کنی ہوئی۔ سوڈان پر اسلام پسندوں کا اقتدار ایسا تجربہ ہے جس کا ہمہ جہتی مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ یہ اپنے آپ میں اسلام پسندوں کے اقتدار کی ناکامی، ان کے نعروں کے کھوکھلا ہونے اور ان کے بیانیے کے جعلی ہونے کی روشن مثال ہے۔ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ اسلام پسند اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی زبان الگ ہوتی ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا طرز مختلف ہوجاتا ہے۔
اہل سوڈان اکتوبر 1964 اور پھر اپریل 1985 کے دورن برپا ہونے والے نامانوس انقلابات کے تجربات بھی کیے ہوئے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اہل سوڈان نے 1964 اور 1985 میں سے کسی بھی انقلاب کے وقت کسی خارجی تجربے کی نقل نہیں کی لہذا سوڈان میں جاری موجودہ تحریک بیداری کی بابت ہمیں انصاف کی بات کرنی چاہیے۔ یہ تحریک خطے میں برپا ہونے والی عرب بہار کے سات برس بعد شروع ہوئی ہے۔ بعض لوگ اسے عرب ممالک میں آنے والے انقلابات کی نقالی کا نام دے رہے ہیں۔ غلطی پر ہیں۔ ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ سوڈانی بیرون ملک ہونے والے واقعات سے متاثر ہوکر سرگرم عمل نہیں ہوئے۔
جو لوگ موجودہ نظام حکومت کی مخالفت میں برپا تحریک کو اپنے طور پر معنی پہنانا چاہتے ہیں انہیں اسلامی تحریک کے 20سالہ اقتدار کے ریکارڈز کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اسلام پسندوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں اہل سوڈان کو ایسے کڑوے کسیلے حالات سے گزارا جس کی نظیر عصری تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے 30برس کے دوران ملک کو دیوالیہ کردیا۔ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں سوڈان دوحصوں میں منقسم ہوگیا۔ جنوبی سوڈان علیحدہ ہوگیا۔ علاوہ ازیں دار فور، جنوبی کردفان اور نیل ازرق کے علاقوں میں تباہ کن جنگیں ہوئیں۔ قبائلی، نسلی اور جاہ و منصب سے متاثر بیانیے نے قومیی معیشت کو 30 برس کے دوران زیر و زبر کردیا گیا۔ قومی دولت لوٹی گئی۔ بیشتر عوام بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوگئے۔ مہنگائی نقطہ عروج کو پہنچ گئی۔ بدعنوانی گھر کر گئی۔
بینکوں سے نقدی ناپید ہوگئی۔ سوڈانی پونڈ کی قدر کم ہوگئی۔ اس کی حیثیت مطبوعہ کاغذ سے زیادہ نہیں رہی۔ جب موجودہ نظام حکومت قائم ہوا تو اس وقت ایک ڈالر 12پونڈ کے برابر ہوگیا تھا۔ آنے والوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ فوجی بغاوت نہ کرتے تو ایسی صورت میں ایک ڈالر 20پونڈ میں فروخت ہونے لگتا نیا منظر نامہ یہ ہے کہ ایک ڈالر 72پونڈ کے برابر ہوگیا ہے۔ یہ سرکار کا دعوی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اب ایک ڈالر 72پونڈ نہیں بلکہ 72ہزار پونڈ کے برابر ہوچکا ہے۔ حکومت تینصفر ہٹا کر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔ سوڈانی پونڈ کی قوت خرید حقیقت طشت از بام کیے ہوئے ہے۔
سوڈانی عوام اقتدار کے زمانے میں اسلام پسندوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کی ز ندگی دیکھ کر نکتہ بازی کیا کرنے لگے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ اسلام پسند غیر معمولی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ملک میں بدعنوانی باقاعدہ ایک رسم کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ریاست کا ہر ادارہ بدعنوانی کے زیر اثر آچکا ہے۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حکومت نے 80فیصد بجٹ سکیورٹی اور عسکری اداروں کے لیے مختص کردیا۔ تعلیم کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ صحت کا نظام انحطاط کا شکار ہوگیا اور ملک میں بے روزگاری عام ہوگئی۔
موجودہ تحریک بیداری کے بنیادی محرکات یہی ہیں۔ ایک طرح سے ناگفتہ بہ حالات پے درپے انبار کی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ ستمبر 2013 کے دوران بھی تحریک بیداری برپا ہوئی تھی۔ نئی تحریک سے قبل سات تحریکیں برپا ہوچکی ہیں۔ سنہ 2013 کی تحریک میں 200 نوجوان مظاہرہ کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسلام پسندوں کے نظام کی مزاحمت کا آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب ان کا ایجنڈا طشت از بام ہوا تھا۔ گذشتہ دو نسلو ں سے اس کا سلسلہ جار ہے۔حکمرانوں نے اسے کچلنے کے لیے جبر اور تشدد کا سہارا لیا۔
ان دنوں جو نوجوان سڑکوں پر ہیں وہ موجودہ نظام کے زیر سایہ پلے بڑھے ہیں۔ وہ نئے نظام کے جبر و قہر سے واقف ہیں۔ مشکل حالات سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اس دور میں تعلیمی انحطاط، آیا خدمات عامہ تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی۔ معیشت مشکل ہوگئی۔ بے روزگاری عام ہوگئی۔ امید کی کرن ناپید ہوگئی۔ اس کا حتمی نتیجہ حکمرانوں کے خلاف مظاہروں اور احتجاجی تحریک کی صورت میں برآمد ہوگیا۔
مظاہرین جبر و تشد د اور ہر طرح کی طاقت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہیں۔ نوجوان گرفتاریوں، مقدمات، یونیورسٹیوں اور گھروں کے تقدس کو پامال کرنے کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں۔ اب وہ عوام کو سراسیمہ کرنے والی تدبیروں سے عاجز آچکے ہیں۔ طاقت کے استعمال نے تحریک بیداری کو روکنے کے بجائے مزید بھڑکا دیا۔ لوگوں کے اندر کا خوف نکل گیا۔ اب ڈرانے دھمکانے والے گروہوں سے نوجوان خوفزدہ نہیں ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی سرکاری حربہ فیل ہوچکا ہے۔
ان سب سے اہم یہ ہے کہ مظاہرین اپنے نعروں پر قائم ہیں۔ مظاہروں میں تشدد، تخریب کاری سے گریز کررہے ہیں۔
سوڈان کی تحریک بیداری اس وقت جس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اب اس سے اس کی پسپائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
پسپائی اس لیے بھی ناکام ہوچکی ہے کہ فوج کے بعض دستے بھی تحریک کا حصہ بن چکے ہیں دوسری جانب پولیس نے بھی مظاہرین کخلاف کارروائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اب پسپائی کی قمت بہ بھاری ہوگی اور اسکے نتیجے میں ایسا نظام معرض وجود میں آگیا ہے جو زیادہ جبر پسند ہوگا۔
موجودہ نظام حکومت کے ایوانوں میں شدید اختلافات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی صفوں میں انتشار در آیا ہے۔ انتہا پسند رہنما مزید تشدد کی جانب مظاہرین کو دھکیلنے کے درپے ہیں۔ بعض ہوش مندوں نے خبردار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ مظاہرین میں کئی شدت پسند اسلحہ بردار لوگ بھی شامل ہوجائیں۔ یہ ممکن ہے سوڈانی منظرنامے کو غلط عینک سے دیکھنے کے کوشاں افراد کی آنکھوں پر پڑے پردے کو ہٹانے میں کامیاب ہوجائے۔
آج غالباً سوڈانی منظر نامے کی تصویر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہوگئی ہے جب پرامن نعروں کا مظاہرہ دھرنا دینے والوں کی جانب سے بار بار لگایا جائے گا تو سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ پلڑا کس طرف جھک رہا ہے اور حالات کا رخ کدھر ہیں۔