’ایک غیرت مند عورت اپنے شوہر کے نام پر پوری زندگی بِتا دیتی ہے، اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے۔ اس کا اُسے ثواب ملتا ہے۔ بسمہ اس عمر میں شادی کرے گی، جوان لڑکی کی ماں ہے کل کو اس کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہوگی اور یہ اپنی شادی کی رسمیں کر رہی ہوگی۔‘
’دادو! جس بات پر آپ کو شرمندگی ہو رہی ہے اس بات پر مجھے تو بہت خوشی ہوگی۔ شادی کے لیے یہ عمر ٹھیک نہیں، شادی کے لیے وہ عمر ٹھیک نہیں ہے یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں۔ اہمیت یہ بات رکھتی ہے کہ جس انسان سے شادی ہو رہی ہے وہ انسان اچھا ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں
-
’آخر کب تک‘: ’ڈرامے میں ہمارا ہیرو نور ہے جو ایک انسپائریشن ہے‘Node ID: 613836
-
’دوبارہ‘: ایسی عورت کی کہانی جسے شوہر کی موت نے ’زندہ‘ کیاNode ID: 621921
یہ جاندار مکالمے ہیں ڈرامہ سیریل ’قرضِ جاں‘ کے، جس میں نشوا (یمنیٰ زیدی) اپنی قدامت پسند دادی (سکینہ سموں) کے سامنے بیوگی کا دُکھ سہنے والی اپنی ماں کے حق کے لیے آواز اُٹھا رہی ہے۔
اس ڈرامے میں بیوگی کا دُکھ جھیلنے والی عورت کے کرب کو بیان کیا گیا ہے۔ کیسے ایک بیوہ کے لیے اُس کے قریبی لوگ ہی زندگی کے دروازے اُس پر بند کر دیتے ہیں، خوشیوں اور رنگوں کو اُس کے لیے ممنوع قرار دے دیتے ہیں، اُٹھتے بیٹھتے اسے یہ باور کراتے ہیں کہ زیادہ ہنسنا اب اسے زیب نہیں دیتا، گہرے رنگ پہننا اب مناسب نہیں، کھانے پینے اور سانس لینے سے زیادہ اُسے اب زندگی سے کوئی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
اسی کرب کو ایک ڈائیلاگ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ: ’ایک بیوہ کے لیے اس کے اپنے ماں باپ بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ ایک بیوہ عورت وہ بھی ایک بیٹی کی ماں، اگر اس کے سر پر چھت نہ ہو تو یہ دنیا اس کے لیے جنگل بن جاتی ہے۔‘
ڈرامے کی کہانی بسمہ (تزئین حسین) اور ان کی بیٹی نشوا (یمنیٰ زیدی) کے گرد گھومتی ہے۔ بسمہ اور اس کا فرسٹ کزن عاصم بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن بسمہ کی والدہ نے اپنی بھابھی (سکینہ سموں) کے احسانوں کی وجہ سےمجبور ہو کر اس کی شادی ان کے بیٹے بہزاد سے طے کر دی۔
یوں بسمہ کو اپنے گھر والوں کی مرضی کے آگے سر جھکانا پڑا۔ اس دوران عاصم نے اپنے تئیں بسمہ کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، وہ اُس کے لیے سٹینڈ لینے کو تیار تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ بسمہ بھی اس کا ساتھ دیتی مگر اب مسئلہ ماں باپ کی عزت کا تھا، سو اپنے والدین پر کیے گئے احسانات کا بدلہ بسمہ کو بہزاد سے شادی کر کے چُکانا پڑا۔
بہزاد بہت عرصے سے اپنی بیماری کاٹ رہا تھا اور سب ہی یہ بات جانتے تھے کہ اُس کا مرض لاعلاج ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے گھر والوں نے سب جانتے بوجھتے بسمہ کی شادی اُس سے کرا دی اور کچھ سال بعد ہی وہ چل بسا۔ یوں بسمہ کو بھری جوانی میں ہی بیوگی کا روگ لگ گیا۔

بسمہ کی گود میں اُس کی اکلوتی اولاد نشوا (یمنیٰ زیدی) تھی جو اس کے جینے کی واحد وجہ تھی۔ بسمہ اور بہزاد کا ساتھ اتنا مختصر تھا کہ اُس کے پاس ماضی کی کچھ ایسی خوشگوار یادیں بھی نہ تھیں جنہیں یاد کر کے وہ کچھ دیر کو اپنا جی بہلا سکتی۔
اگرچہ وہ دوسری شادی بھی کر سکتی تھی لیکن اُس کی سنگ دل اور قدامت پسند ساس اور جیٹھ بختیار (دیپک پروانی) کا رویّہ حد درجے کنٹرولنگ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق نہیں لے سکی۔
بسمہ کی ساس (سکینہ سموں) کو ایک انتہائی منافق اور سفاک خاتون دکھایا گیا ہے جو دوسروں کو تو حُسنِ سلوک اور حقوق العباد کا درس دیتی ہے جبکہ اپنے گھر میں ایک بیوہ عورت کے لیے زندگی تنگ کیے بیٹھی ہے۔
اسے بسمہ کچھ اس لیے بھی کھٹکتی ہے کہ بہزاد کی موت پر وہ پھوٹ پھوٹ کر کیوں نہ روئی۔ ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اُسے یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر بسمہ نے شادی کر لی تو کہیں مرحوم بیٹے کی جائیداد سے ہاتھ دھونے نہ پڑ جائیں۔
بسمہ اپنے گھر میں اپنے جیٹھ کی ہراسانی کو بھی برداشت کرنے پر مجبور ہے جو اسے مختلف بہانوں سے چُھونے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنے ہی گھر میں وہ اتنی لاچار ہوتی ہے کہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے اُسے اپنے جیٹھ سے جیب خرچ لینا پڑتا ہے۔
بسمہ کی بیٹی نشوا کا کردار سب سے زیادہ جاندار ہے جو اپنی ماں کے بالکل برعکس ہے۔ وہ حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنا جانتی ہے اور اپنی ماں کی حق تلفی پر اُسے بھی سمجھاتی ہے اور اپنے تایا اور دادی کو بھی ٹوکتی ہے۔
لیکن کئی بار وہ ان دونوں کے سخت فیصلوں کی وجہ سے مجبور بھی ہو جاتی ہے اور ایک موقع پر اس کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتی ہے کہ : ’یتیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کا باپ نہیں ہوتا تو۔۔۔ ہر کوئی آپ کا باپ بنا ہوتا ہے۔‘
نشوا ایک وکیل ہے جو ابھی بیرسٹر برہان (اُسامہ خان) کی سرپرستی میں وکالت کی پریکٹس کر رہی ہے۔ بیرسٹر برہان ایک نامی گرامی وکیل ہے جس کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ کوئی کیس ہارتا نہیں۔ نشوا بھی بیرسٹر برہان کی طرح کامیاب وکیل بننا چاہتی ہے اور بیرسٹر برہان نشوا کی ذہانت اور خوداعتمادی سے خاصا متاثر ہے۔

کہانی آگے بڑھتی ہے اور ایک دن اچانک عاصم (فیصل رحمان) برسوں بعد اپنی والدہ جنہیں وہ بی جان کہتا ہے، کے ساتھ پاکستان واپس آ جاتا ہے۔
نشوا کو خوشگوار حیرت کا جھٹکا اُس وقت لگتا ہے جب اُسے یہ معلوم پڑتا ہے کہ بیرسٹر برہان عاصم کا ایڈاپٹڈ چائلڈ ہے۔
عاصم نے بسمہ کو کھونے کے بعد شادی نہیں کی تھی بلکہ اُس نے اپنے ایک دوست کے بیٹے کو گود لے لیا تھا۔ وہ آج بھی بسمہ کی محبت میں ہی گرفتار تھا۔
نشوا کو بھی بلآخر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی ماں کی شادی زبردستی کرائی گئی تھی جبکہ وہ عاصم سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ برہان اور نشوا دونوں ہی عاصم اور بسمہ کی شادی کرانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
بی جان جب عاصم کا رشتہ لے کر بسمہ کی ساس کے پاس جاتی ہیں تو وہ بپھر جاتی ہے اور غصّے میں سخت سست سنا دیتی ہے۔ جس پر نشوا اپنی دادی کو احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسری شادی کرنا اُس کی ماں کا حق ہے۔
بسمہ کے دل سے بھی عاصم کبھی نہ نکل سکا لیکن اپنی ساس اور جیٹھ کی سفاکیت کی وجہ سے وہ بہزاد کی بیوہ کے طور پر ہی اپنی پوری زندگی گزارنے کی پابند تھی اور وہ اس زندگی کو اپنے لیے قبول کر چکی تھی۔
کہانی میں ڈامائی موڑ اُس وقت آتا ہے جب نشوا کا تایا بختیار (دیپک پروانی) اپنی ماں (سکینہ سموں) کو سمجھاتا ہے کہ وہ بسمہ کی شادی کے لیے ہاں کر دیں: ’بسمہ کو آزاد کر دیں اور اس کے پیروں کی بیڑیاں اس کی بیٹی کے پیروں میں ڈال دیں۔ یوں بسمہ کی سزا کبھی ختم نہیں ہوگی۔‘
بختیار اپنی بھتیجی نشوا کی شادی اپنے نشے کی لت میں مبتلا بیٹے عمار (نمیر خان) سے کرنا چاہتا ہے جو ایک عیاش طبیعت لڑکا ہے اور گینگ ریپ کے مقدمے میں بھی نامزد ہے۔
وہ نشوا کے آگے شرط رکھ دیتا ہے کہ اگر وہ عمار سے ابھی نکاح کر لے تو وہ اُس کی ماں بسمہ کی شادی عاصم سے کرا دے گا۔ اور یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ اگر نکاح کے بعد اُس نے عمار کو چھوڑا تو عاصم اور بسمہ کی جان جا سکتی ہے جسے حادثاتی موت کا رنگ دیا جا سکتا ہے۔
نشوا جسے اپنی دُکھوں کی ماری ماں کی خوشیاں عزیز ہوتی ہیں وہ اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہو جاتی ہے۔

عاصم اور بسمہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور نشوا کے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں کہ کیسے اُسے اُس قیدخانے سے ہمیشہ کے لیے نکالا جائے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ نشوا اپنی ماں کی خوشیوں کے لیے کیسا گھاٹے کا سودا کر بیٹھی ہے۔
اسی دوران بیرسٹر برہان نشوا سے اپنی محبت کا اظہار کر دیتا ہے جسے وہ ٹھکرا دیتی ہے اور عمار سے اپنے نکاح کے بارے میں اسے آگاہ کر دیتی ہے۔ جب بسمہ کو پتا چلتا ہے تو وہ اپنے پرانے سسرال جا کر پہلی بار اپنی بیٹی کے لیے چیختی چلّاتی اور روتی ہے۔
کچھ ہی دنوں بعد نشوا اور عمار کی شادی ہو جاتی ہے۔ اِن دونوں میں بچپن سے ہی لڑائی جھگڑے رہے ہیں کیونکہ نشوا کو ایسا لگتا تھا کہ لڑکا ہونے کی وجہ سے عمار کو گھر میں لاڈ پیار ملتا ہے، اُس کی ہر جائز ناجائز بات مانی جاتی ہے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ جبکہ عمار کو نشوا سے اس لیے چڑ تھی کیونکہ وہ خاندان کی ذہین لڑکی تھی اور وہ اُس سے دب کر نہیں رہتی تھی۔
نشوا شادی کے بعد عمار کو نشے کی لت سے چھٹکارہ دلانے کے لیے رہاب سینٹر لے جانے کی کوشش کرتی ہے لیکن عمار اُسے گاڑی سے اُتار کر بیچ سڑک پر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
پیسے کے غرور اور نشے کی لت میں مبتلا عمار غصّے میں اپنے بہنوئی کا قتل کر بیٹھتا ہے اور اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اُس کی بہن یعنی بختیار احمد (دیپک پروانی) کی بیٹی بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی ہے۔

بختیار کی بیوی اُسے اور اپنی ساس (سکینہ سموں) کو یہ احساس دِلاتی ہے کہ جو کچھ انہوں نے بسمہ کے ساتھ کیا یہ سب اُسی کا خمیازہ ہے۔ بیٹا جیل میں ہے اور بیٹی بیوہ ہو گئی، جو کچھ انہوں نے بویا اُسے ان کی اولاد کاٹ رہی ہے۔
اب یہ ڈرامہ اپنے اختتامی مراحل میں ہے۔ بختیار احمد اپنے بیٹے کو جیل سے نکالنے کے لیے بیرسٹر برہان کی خدمات لینے کا سوچ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف نشوا چاہتی ہے کہ عمار کے ہاتھوں گینگ ریپ کا شکار ہونے والی ماہین کو انصاف مل سکے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا برہان عمار بختیار احمد سے ڈیل کرے گا اور بدلے میں نشوا کو اُس کے تایا اور دادی کے چُنگل سے آزاد کروائے گا یا کہانی کوئی اور ہی رُخ لے گی۔
رابعہ رزّاق نے اپنے قلم سے ایسے کاٹ دار مکالمے لکھے ہیں کہ داد دینا پڑے گی۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس ڈرامے میں نہ صرف بیوہ کے حوالے سے دقیانوسی خیالات کو چیلنج کیا گیا ہے بلکہ نشوا کے کردار کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ایک لڑکی اپنے حق کے لیے لڑ سکتی ہے، وہ اپنی ذہانت سے کسی بھی شعبے میں خود کو منوا سکتی ہے۔