اے وحید مراد
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کے بالمقابل گرین بیلٹ پر پندرہ بیس افراد نعرے بازی کر رہے تھے۔ پولیس کی گاڑیاں اور ٹرک بھی کھڑے تھے مگر ان کا کردارمحض تماشائیوں جیسا تھا۔
نعرے بازی کرتے یہ لوگ اپنے ساتھ دس کلو پھولوں کی پتیاں بھی لائے تھے، مگر جن پر نچھاور کرنا تھیں وہ آئے نہیں یا شاید ان کے لیے لائی ہی نہیں گئیں تھی ۔
وکیل ایک تھا اور پھول دس کلو پھر کسی نے صحافیوں پر پتیاں نچھاور کیں تو کسی نے آواز لگائی کہ بچ جانے والے پھول گاڑی میں رکھ دیں۔
یہ منظر جمعرات دو مئی کی صبح اس وقت دیکھنے کو ملا جب سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کا سنگین غداری کے تحت ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت نے دبئی کے امریکی ہسپتال میں زیرعلاج 'کمانڈو' کی مقدمے سے بری کرنے کی درخواست پر حکومت کو جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیے۔
پرویز مشرف کے ملک واپس نہ آنے کا تو سب کو علم تھا، مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ جب سپریم کورٹ نے مقدمے کو استغاثہ کے گواہوں اور دلائل کی بنیاد پر مکمل کرکے فیصلہ سنانے کی ہدایت کی ہے توکچھ بھی ہوسکتا ہے۔
خصوصی عدالت نے استغاثہ کے سربراہ نصیرالدین نیئر کی یہ درخواست ابتدا میں ہی مسترد کر دی کہ جب ملزم عدالت آنے سے انکاری ہے تو اس کے وکیل کو کس قانون کے تحت سناجاسکتاہے؟
نصیرالدین نیئر نے عدالت کے سامنے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا کہ ان کو نہیں سنا جا سکتا، مگر پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو استغاثہ کے سربراہ واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدرنے پہلےعدالت کو بتایا کہ جس الزام پر مقدمہ ہے وہ جرم 2007 میں ہوا۔ کیس 2013 میں درج کیا گیا۔ پرویز مشرف پر تین مختلف مقدمات بنائے گئے جن میں بے نظیر بھٹو قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس اور ججوں کی نظربندی کا مقدمہ شامل ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ غداری کیس میں مارچ 2014 میں فرد جرم عائد کی گئی۔ استغاثہ دو سال اور تین ماہ میں کیس ثابت نہیں کر سکا۔ اس عرصہ کے دوران پرویز مشرف ملک میں موجود تھے۔'ان کو بیماری کا علاج کرانے کے لیے باہر جانے دیا گیا۔‘
سلمان صفدر نے بتایا کہ پرویز مشرف کو76 سال کی عمر میں شدید طبی مسائل کا سامنا ہے۔ ان امراض کے حوالے سے رپورٹ عدالت کے سامنے ہے۔ پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہتے ہیں، لیکن دل کے عارضے اور ریڑھی کی ہڈی کی تکلیف کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتے۔' ڈاکٹرز نے سفر کو مشرف کی زندگی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ گزشتہ دو سال میں ان کی چالیس مرتبہ کیموتھراپی ہوچکی ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹس اور ہسپتال میں داخلے کی تصاویر عدالت کے سامنے پیش کی ہیں۔ 'پرویز مشرف کو گردوں اور ریڑھی کی ہڈی کی سخت تکلیف ہے۔ دو ہفتے قبل میں خود دبئی گیا تو وہ بول بھی نہیں سکتے تھے اور کسی چیز پر فوکس نہیں کر پا رہے تھے۔‘
پرویز مشرف کے وکیل نے مقدمہ ملتوی کرنے کی درخواست کی تو استغاثہ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے التوا نہ دینے اور ٹرائل جلد مکمل کرنے کے لیے کہا ہے۔خصوصی عدالت کے جسٹس شاہد کریم نے پوچھا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کہ ہم کیس کی سماعت ملتوی نہیں کر سکتے۔'
ایک درخواست فوری منظور ہوئی تو پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے مشرف کو مقدمے سے بری کرنے کی استدعا کر دی۔انہوں نے کہا کہ بریت کی درخواست دائر کررکھی ہے۔ 'قانون یہ کہتا ہے کہ وزیراعظم یا وزارت داخلہ کا انفرادی اقدام حکومت کا اقدام نہیں ہو سکتا۔ حکومت کا مطلب کابینہ ہوتا ہے وزیراعظم کی ہدایت پر یہ کیس بنایا ہی نہیں جا سکتا جبکہ گواہ نمبر ایک نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر یہ کیس بنایا گیا ہے۔‘
عدالت نے یہ دلیل دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا جبکہ پہلی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 12 جون تک ملتوی کردی ۔
وکیل سلمان صفدر ہنسی خوشی عدالت کے مرکزی دروازے سے باہرنکلے تو نعرے گونجے ۔ سید پرویز مشرف ، زندہ باد۔ اور اس کے ساتھ ہی فضا میں گلاب کی سرخ پتیوں کی بہار آگئی۔
عدالت سے نکلنے والے رپورٹرز پریشان تھے کہ نعرے لگاتی 'یہ مخلوق' کہاں سے آئی اور کیسے یہاں تک پہنچی۔ ایک آواز گونجی کہ 'اتنی جلدی کس فرشتے نے یہاں خبر بریک کردی۔‘
عدالت کے باہر نعرے لگاتے ہجوم میں لاہور کےعلاقے سمن آبادکا محمد خلیل بھی تھا۔جوتوں کا کام کرنے والے محمد خلیل سے پوچھا کہ ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا نظریہ کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ 'جنرل مشرف خودایک نظریہ ہیں۔‘