Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھ لاکھ سعودی خواتین بے روزگار

سعودی عرب میں یوں تو خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سعودی خواتین میں بے روزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
سعودی اخبار المدینہ کے مطابق سعودی اکنامک سوسائٹی کے رکن ڈاکٹر عصام خلیفہ نے کہا ہے کہ یہ دنیا میں بے روزگار خواتین کی بد ترین شرح ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کے روزگار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی اور کئی انتظامی فیصلوں کے باوجود لیبرمارکیٹ میں خواتین کی ملازمتوں کا تناسب ابھی تک کم ہے۔
سعودی عرب کے محکمہ شماریات کے مطابق’ 6لاکھ سے زیادہ سعودی خواتین بے روزگار ہیں۔'
اخبار المدینہ کے مطابق سعودی خواتین میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے آٹھ اہم اسباب ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نجی ادارے خواتین کے ساتھ صنفی امتیازبرتتے ہیں۔
دورانِ حمل اور بچے کی ولادت کی چھٹیاں اور پھر بچوں کی نگہداشت کی وجہ سے مقرر کردہ دفتری اوقات کار پورے نہ کرنے کے باعث بھی نجی ادارے خواتین کو ملازمت کے لیے ترجیح نہیں دیتے۔
خواتین کی اجرت میں کمی بھی ان کی ملازمت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا معیاری نظام نہ ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
سعودی ایوان صنعت و تجارت کونسل میں لیبر مارکیٹ کی سعودی کمیٹی نے خواتین کی جانب سے سرکاری ملازمتوں کو ترجیح دینے کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا۔
لیبر مارکیٹ کی سعودی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی خواتین نجی اداروں میں کام کرنے کے بجائے سرکاری اداروں میں ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں اور روزگار کے مواقع ہونے کے باوجود نجی اداروں کا رخ نہیں کرتیں۔
اکثر نجی اداروں کا ماحول بھی خواتین کے لیے موزوں نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ ان اداروں میں ملازمت سے کتراتی ہیں۔
سعودی ایوان صنعت و تجارت کونسل میں لیبر مارکیٹ کی سعودی کمیٹی کے چیئرمین منصور الشثری نے توجہ دلائی کہ ’بعض ملازمتیں خواتین کے لئے مختص کرکے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے اور سعودی وزارت محنت کو اس کا اختیار حاصل ہے۔‘
منصور الشثری نے کہا کہ اکثر نجی اداروں نے اپنا رویہ تبدیل کرلیا ہے،ان اداروں کا ماحول بھی ٹھیک کیا جا رہا ہے، فروغ افرادی قوت فنڈ (ہدف) کی جانب سے خواتین کو روزگار فراہم کرنے والے اداروں کی مالی اعانت بھی اپنا اثر دکھا رہی ہے، اس کے باوجود بہت ساری خواتین نجی اداروں میں ملازمت پر سرکاری اداروں کو ہی ترجیح دے رہی ہیں۔'

شیئر: