انگریزوں کے خلاف برصغیر میں ہونے والی بغاوت کے آثار تو سنہ 1765 کے بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے محصولات اکٹھے کرنا اور کچھ ریاستوں کی ہیئت اقتدارمیں اپنا عمل دخل بڑھانا شروع کیا لیکن 10 مئی 1857 کو شروع ہونے والی باقاعدہ جنگ نے خطے میں انگریزوں کے قیام اور اس کے ہندوستان کے مقامی باشندوں پر پڑنے والے اثرات کے خدوخال کو بڑی حد تک واضح کر دیا تھا۔
آج سے 162 سال قبل جب ہندوستانی سپاہیوں نے بنگالی فوج کو انگریز سرکار کی طرف سے دی جانے والی گولیاں اس بنا پر چلانے سے انکار کیا کہ ان کو ان جانوروں کی چربی سے بنایا گیا تھا جو مذہبی اعتبار سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے حرمت کے دائرے میں آتے ہیں اور اس کے بعد دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کی تو یہ سب کچھ برطانوی راج کے لیے بہت اچانک تھا ۔
بغاوت جب میرٹھ سے نکل کر دہلی، کانپور، لکھنو اور چھوٹے بڑے دوسرے مقامات پر پہنچی تووقتی طور پر انگریزوں کے لیے آزمائش کا وقت آیا لیکن بہادر شاہ ظفرکو دوبارہ سے ہندوستان کا حاکم مقرر کرنے کے بعد مقامی باشندوں کی یہ جنگ آزادی ٹھہر گئی۔
نہ صرف یہ کہ مدراس اور بمبئی میں انگریز فوج کے مقامی سپاہیوں کی طرف سے جنگ آزادی کے دستوں کو کوئی کمک نہ ملی بلکہ پنجاب بھی اس سے دور ہی رہا ۔
نتیجتاً انگریز سرکار نے پنجاب سے زیادہ سے زیادہ فوجی بھرتی کر کے بغاوت کا قلعہ قمع کردیا۔
آٹھ جولائی 1859 کو جب انگریز سرکار نے ہر طرح کی مزاحمت کو کچل کرپورے برصغیرمیں امن کا اعلان کیا اور یہ مکمل طور پر باضابطہ راج کے ماتحت چلا گیا تواس کے بعد انگریز کی فوج کا ایک بڑا حصہ پنجاب اور دوسرے ایسے علاقوں کے جوانوں پر مشتمل ہو گیا جنہوں نے سنہ 1857 کی شورش سے کنارہ کشی اختیار کی کیونکہ انگریزوں کے نزدیک یہ عمل انہیں بنگال اور بغاوت کا مرکز بننے والے دوسرے علاقوں سے زیادہ وفادار ثابت کرتا تھا۔
تاریخ کے ماہر ڈاکٹر الہان نیاز کے مطابق پنجاب کے لوگوں کا جنگ آزادی میں حصہ دار نہ بننے کی وجہ بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا دوبارہ سے بادشاہ مقرر کرنا تھا کیونکہ پنجاب کے سکھ مغلوں کواپنا بڑا دشمن سمجھتے تھے اور ان کی نسبت انگریزوں کو اپنا ہمدرد گردانتے تھے ۔
پنجاب کی انگریزوں سے وفاداری کا بالواسطہ فائدہ مسلمانوں کو بھی ہوا کیونکہ جب انگریزوں نے فوج کی بھرتیاں یہاں سے کیں تو اس میں ایک بڑا حصہ ان علاقوں کے جوانوں پر مشتمل تھا جو ابھی پاکستان میں ہیں، اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا کچھ اثرورسوخ بن گیا۔
محقق ڈاکٹرمبارک علی کے مطابق سنہ 1857 کی جدوجہد اتحاد کی ایک ناکام کوشش تھی، تنظیم کی کمی اور ابلاغ کے نہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں بھی شکست ہوگئی۔
ان کے مطابق پنجاب کے لوگوں کو انگریزوں کی نسبت مغلوں سے زیادہ شکایات تھیں ۔
الہان نیاز کہتے ہیں کہ اس شکست سے جو سبق ملا، وہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی کامیابی کے لیے اس کا متحد ہونا ضروری ہے۔
کوئی بھی ریاست یا کمیونٹی خود مختار نہ ہو تو اس کی ترقی اور خوش حالی مشکل ہے۔ بدقسمتی سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے بعد انڈیا اور پاکستان میں مزید تقسیم ہوئی اور ان کی موجودہ قیادتیں اس میں اضافہ کررہی ہیں۔