Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرون: حملے اور جاسوسی کے لیے بہترین ’جنگی پرندہ‘

چینی ڈرون سی ایچ 5۔ تصویر: ساوتھ چائینہ مارننگ پوسٹ
ڈرون کو دورِ حاضر میں حملے کے لیے انتہائی اہم ہتھیار سمجھا جاتا ہے جوتصویر کشی سے لیکر بم برداری، حملے ،جاسوسی ،آگ بجھانے اور پٹرول کی پائپ لائن کی نگرانی تک کا کام انجام دے رہا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کا پہلا تجربہ 1917ء کے دوران انگلینڈ میں کیا گیا جبکہ اس کا پہلی بار باقائدہ استعمال ویتنام کی جنگ میں ہوا۔ سنہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی ڈرون سے کام لیا گیا تھا تاہم مصر کے میزائل نظام نے اسے غیر موثر بنادیا تھا۔
سنہ 1973 کی جنگ میں ڈرون سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تھا البتہ اسرائیل اور شام کے درمیان میں ہونے والے معرکے میں ڈرون نے اپنی اہمیت کو منوالیا تھا۔ اس معرکے میں شام کے 28 طیارے گرائے گئے تھے جبکہ اسرائیل کا ایک بھی جہاز متاثر نہیں ہوا تھا۔

ایرانی ڈرون فطرس. 

ڈورن کی اقسام میں سے کچھ ریموٹ کنٹرول سے چلتے ہیں جبکہ بعض خود کار سسٹم سے آراستہ ہوتے ہیں ۔ یہ مصنوعی ذہانت سے لیس ہوتے ہیں۔
ڈرون کو سکیورٹی  خطرہ مان لیا گیا ہے اور انہیں ہوائی اڈوں ، جیلوں ، تیل تنصیبات ، سرکاری اداروں  اور فوجی اڈوں پر حملوں کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے ۔
ڈرون کی مدد سے دشمن کے ٹھکانوں کو براہِ راست نشانہ بنالیا جاتا ہے اور فوجی دشمن کی گرفت میں نہیں آتے۔ اگر ڈرون گرا لیا جائے تو اس پر زیادہ لاگت نہ آنے کی وجہ سے بھاری مالی نقصان نہیں ہوتا ۔
ڈرون بغیر پیشگی انتباہ علاقائی جنگ بھڑکا سکتے ہیں
ڈرون کو پہلے بلقان کی جنگ پھر افغانستان اور عراق کی جنگوں میں آزمایا گیا ہے۔ امریکی خفیہ ادارہ سینٹرل انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال کیا۔ اس سے اہم دہشتگرد کمانڈروں پر موثر حملے کیے گئے ۔
جدید جنگوں میں ڈرون کا بڑے پیمانے پر استعمال جانی نقصان سے بچاؤ کا  بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔

جاپانی ڈرون انیٹی ڈرون اسکواڈ۔ تصویر: آر ٹی

چڑیوں جیسے ناقابل تسخیر ڈرون
سیکیورٹی امور کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بازاروں میں فروخت ہونے والے چھوٹے حجم کے ڈرون خطرہ بن سکتے ہیں ۔ یہ سستے ہوتے ہیں ، کوئی بھی خرید سکتا ہے۔ مسلح تنظیمیں یا انتہا پسند گروہ ان کی مدد سے کسی بھی ریاست یا سیاستدان یا قائد یا اپوزیشن رہنما یا کسی بھی اہم مقام کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ان کی مدد سے بڑے پیمانے پر دہشتگرد حملے ہو سکتے ہیں۔
امریکہ کے لائف فیوچر انسٹیٹیوٹ کے اسکالر اسٹیورٹ راسل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنگی صنعت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے تباہ کن ڈرون بنائے جا سکتے ہیں جو ناقابل تسخیر ہوں گے۔ ان کا حملہ نہیں روکا جا سکتا۔ یہ ننھی منھی چڑیوں کے حجم کے ہوں گے۔

ڈرون کے خطرات کے پیش نظر ان سے نمٹنے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔

جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرر ہی ہے ویسے ویسے ڈرون ساز بھی نت نئے ڈرون تیار کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ مسابقت میں شدت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنا دیا ہے۔ 
’رایون‘ ساخت کے چھوٹے سائز کے ڈرون کا وزن  دو کلوگرام سے زیادہ نہیں ہوتا ۔ یہ چار کلومیٹر کے دائرے میں کام کرلیتے ہیں ۔
ڈرون سے نمٹنے کی تیاریاں
ڈرون کے خطرات کے پیش نظر ان سے نمٹنے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ ایسی ٹیکنالوجی دریافت ہو چکی ہے جو ڈرون کا سدِ باب کر سکے۔ جاپان کے تیار کردہ اینٹی ڈرون سکواڈ نامی طیارے ان میں سب سے نمایاں ہیں ۔ یہ بم نیٹ ورک کی مدد سے مخالف ڈرون کو شکار کرنے والے نظام سے چلتے ہیں۔

شیئر: