عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف حکومتی ریفرنس پر ملک بھر کی وکلا تنظیموں نے ہڑتال اور احتجاج دھرنے دیے۔
جمعے کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے والے فورم سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ختم ہو گیا ہے۔
جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے موقع پر وکلا اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر ’کالا کوٹ کالی ٹائی، حکومت تیری شامت آئی‘ کے نعرے لگائے۔
اسلام آباد میں ’اردو نیوز‘ کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق اس موقعے پر وکلا نے ریفرنس کی کاپی کو بھی آگ لگا دی۔
سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی، ان کے گروپ کے سربراہ حامد خان اور عاصمہ جہانگیر گروپ کے علی احمد کرد بھی احتجاج میں شامل تھے۔
دوسری طرف کوئٹہ میں بھی وکلا نے عدالتی بائیکاٹ کیا اور ہائی کورٹ کے احاطے میں دھرنا دینے کے علاوہ وکلا نے ہتھکڑیاں پہن کر علامتی احتجاج بھی کیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے جمعرات کو نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’وکلا صبح نو بجے سے لے کر کونسل کی کارروائی کے خاتمے تک عدالت عظمیٰ کے باہر شاہراہ دستور پر دھرنا دیں گے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم کی اطلاعات و نشریات کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے لاہور میں پریس کرتے ہوئے کہا کہ ’ایشیا کی سب سے بڑی بار، لاہور بار کونسل،لاہور ہائی کورٹ بار، پنجاب بار کونسل اور وکلا ایکشن کمیٹی نے قانون کی بال دستی اور کالے کوٹ کے تقدس کے تحفظ کے لیے عدالتوں میں کام جاری رکھا جس پر ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘ انہوں نے ہڑتال کیے ہوئے وکلا تنظیوموں سے اپیل کی کہ آیئنی مسئلوں اور قانونی معاملوں پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔
اسلام آباد کے وکلا کے ایک دھڑے نے بھی پریس کانفرنس کرکے احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس میڈیا کو لیک کرنا ’ڈان لیکس‘ سے بھی زیادہ سنگین ہے جس پر صدر اور وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنے ارکان کو ریفرنس کی سماعت کے موقعے پر شاہراہ دستور پر جمع ہونے کے لیے کہا تھا۔
ملک میں وفاقی سطح پر وکیلوں کو پریکٹس کا لائسنس جاری کرنے والی مرکزی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف ریفرنس پر جمعے کو ملک بھر میں ہڑتال اور احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔
پاکستان بار کونسل نے بدھ کو اپنے اجلاس میں ججز کے خلاف حکومتی ریفرنسز پر قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنسز بدنیتی پر مبنی ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا کہ بار کونسل امید کرتی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کے خلاف ‘حکومتی ٰڈیزائن‘ میں فریق نہیں بنے گی اور معاملے کو مکمل طور پر آئین اور قانون کے مطابق دیکھے گی۔
پاکستان بار کونسل کی قرارداد کے مطابق ’ریفرنس پر وکلا کو تقسیم کرنے کی ناکام حکومتی کوشش کا سخت نوٹس لیا گیا ہے۔‘
ملک میں وکیلوں کے دونوں بڑے دھڑوں عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ نے جمعہ کو ہڑتال اور احتجاج کے ساتھ بار ایسوسی ایشنز میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کر رکھا ہے۔ خیال رہے کہ صدرعارف علوی نے ججز کے خلاف ریفرنس 28 مئی کو بھجوایا تھا۔ ریفرنس میں ججز پر بیرون ملک اثاثے رکھنے اور انہیں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کیا ہے؟