سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 14جون کو سپریم کورٹ کے جج قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ بار کے سربراہ امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر سے آئے وکلا اس دھرنا میں حصہ لیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس نہیں لیا جائے۔
جمعے کو کوئٹہ میں بلوچستان کی وکلا تنظیموں کے عہدے داروں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ احتجاج کا فیصلہ کوئٹہ میں بلوچستان کی وکلا تنظیموں کے نمائندہ اجلاس میں متفقہ طور پر کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے اس لیے یہاں کے وکلا نے بھی بھر پور احتجاج کا فیصلہ کیا ہے اور اس دن بلوچستان ہائیکورٹ کے دروازے پر بھی دھرنا دیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ اور دیگر الزامات کے تحت کارروائی کے مجاز فورم سپریم جوڈیشل کونسل نے حکومت کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس کے کے آغا کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔ جن کے تحت ریفرنس پر ابتدائی کارروائی کے لیے 14 جون کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ 14جون کو ملک بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائےگا۔ وکلا سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر دھرنا دیں گے اور وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس حکومت واپس نہیں لیتی یا عدالت اس کو بد نیتی پر مبنی قرار دے کراسے خارج نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس وقت تک وہی بیٹھے رہیں گے چاہے اس میں ایک دن لگتا ہے چاہے اس میں ایک مہینہ لگتا ہے یا سال ۔ ہم ادھر ہی بیٹھے رہیں گے۔ ہمیں اٹھانے کی جس طرح بھی کوشش کی جائے گی ہم اس کا مقابلہ کرینگے۔ ہم کوئی تشدد نہیں کریں گے۔‘
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ہم عدلیہ اور اداروں کے ساتھ ہیں اور حکومت کے خلاف بھی ہمارا کوئی منصوبہ نہیں۔ حکومت اس ریفرنس کو فوری واپس لیں ورنہ پھر اس کو ہر ایک اپنے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کے لیے 11نکات پر مبنی ضابطہ اخلاق ہے۔ قاضی فائزعیسیٰ پر جو الزام لگایا گیا ہے ضابطہ اخلاق میں شامل ہی نہیں۔ بلکہ قاضی پر کوئی الزام بھی نہیں جو الزام میڈیا میں آیا ہے وہ ان کی بیگم اور بیٹے پر ہے۔ ان کی بیگم اور 26 سالہ بالغ وکیل بیٹا خود کفیل ہیں ان کی اپنی جائیدادیں اور اپنی زمینیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بلوچستان کے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہیں جن کی بلوچستان اور سندھ میں زرخیر زرعی زمینیں ہیں۔جو افراد جج کے زیر کفالت نہیں ان کے اثاثے چھپائے نہیں گئے صرف اندراج نہیں کیا گیا۔ یہ قانونی نکتہ ہے کہ اسے جج صاحب کو ظاہر کرنے چاہیے تھے یا نہیں۔ یہ تکنیکی غلطی ہوسکتی ہے مگر یہ کوئی جرم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی شکایت ہے تو وہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کی نہیں لیکن ایسی بہت سی شکایات کئی جج صاحبان کے خلاف موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 350 شکایات موجود ہیں اور 22کروڑ عوام کو کچھ پتہ نہیں کہ ان شکایات میں کس کس کا نام ہے اور کیا کیا الزامات ہیں اور ان پر کیا کارروائیاں ہوئی ہیں۔ صرف قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہی ریفرنس پر جس طرح پیشرفت ہورہی ہے اسے ہم امتیازی سلوک سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وکلا آزاد عدلیہ کے ساتھ ہیں اورتمام ججوں کا احترام کرتے ہیں مگر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔ہمارا فیصلہ بڑا جائز اور انصاف پر مبنی ہے کہ معاملے کو خراب نہ کیا جائے۔‘
بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نادر چھلگری نے اس موقع پر کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے کی تائید کی مذمت کرتے ہیں ۔یہ وفاقی حکومت کی جانب سے مداخلت ہے ۔وکلاءنہیں جھکیں گے اور اداروں کی ساکھ اور آئینی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔