سپیکر قومی اسمبلی نے یہ عجب اعلان کیا ہے کہ عمران خان کو کوئی شخص ’سلیکٹڈ‘ وزیر اعظم کہہ کر نہ پکارے۔ ہو سکتا ہے کہ سپیکر صاحب کا استدلال درست ہو کہ اس سے اسمبلی کی توہین ہوتی ہے، پارلیمان کی تضحیک ہوتی ہے یا پھر ایوان کا وقار مجروح ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اپنے ہاں بعض باتوں سے روکا جانا ہی ان کی شہرت کا سبب بن جاتا ہے۔
جس چیز کو چھپانا مقصود ہوتا ہے وہی اس کی تشہیر کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسری جانب شائد ایسے موقعوں کے لیے ہی وہ عامیانہ سا فقرہ تخلیق ہوا ہے جس میں پھول کا راز اس کی خوشبو کے توسط سے فاش ہونے کی بات کی گئی ہے۔
وزارت عظمی کے پھول پر تو پھر کبھی بات ہو گی مگر معزز سپیکر صاحب سے ’لغزش‘ یہ ہوئی ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ انہوں نے اس پابندی سے کس قوم کو للکارا ہے۔
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں جس چیز سے منع کروہم سب نے وہی کام کرنا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر سرخ بتی کے اشارے کو اس لیے صرف توڑنا ہے کہ اس لمحے گاڑی کو آگے بڑھانے کی ممانعت ہے۔ ہم وہ دلچسپ لوگ ہیں جنہیں جہاں ’نو پارکنگ‘ کا بورڈ نظر آئے گا یہ وہیں گاڑی پارک کریں گے۔
جس فلم پر لکھا ہو گا ’صرف بالغوں کے لیے‘ اس کو سب سے زیادہ مقبولیت نابالغوں میں نصیب ہوگی۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ چاہے ساری عمر کوئی کتاب نہ پڑھیں لیکن جیسے ہی کسی کتاب پر پابندی لگے گی اس کتاب کوپڑھ کر ہی دم لیں گے۔
ہم تو وہ ہیں جہاں لکھا ہو گا کہ ’یہاں کوڑا پھینکنا منع ہے‘ وہیں کوڑے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ ہم وہی لوگ ہیں جو سکول میں جس مضمون کے ساتھ لازمی لکھا ہو اسی میں فیل ہونے کو قابلیت جانتے ہیں۔ اب بیچارے سپیکر صاحب نے اپنی طرف سے تو نیکی کا ہی سوچا ہو گا مگر اس نیکی کے لیے غلط قوم کو چنا گیا ہے۔ اب دیکھتے جائیے کہ ’سلیکٹڈ‘ پر پابندی کے کیا کیا دلچسپ نتائج نکلتے ہیں۔
کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے تک مارکیٹ میں ’سلیکٹڈ‘ پان چھالیہ کا برانڈ آ جائے۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ لاہور میں ’سلیکٹڈ‘ دہی بھلوں کی ریڑھی نظر آجائے۔ ملتان میں اصلی حافظ سوہن حلوے کی بہت سی دوکانوں میں سے کوئی جدت پسند ’سلیکٹڈ‘ حافظ سوہن حلوے کا برانڈ مارکیٹ میں متعارف کروا دے۔
پاپوش فروش ’سلیکٹڈ‘ جوتوں کے نام سے مارکیٹ میں نئے جوتے لے آئیں۔ روالپنڈی کی اصلی گراٹو جیلبیوں کی بہت سی دوکانوں کے عین بیچ ایک دوکان ’سیلیکٹیڈ‘ گراٹو جیلبی کی کھل جائے۔
درزی اپنے کلائنٹس کو متاثر کرنے کے لیے’سلیکٹڈ‘ ٹانکہ اور کڑھائی کی تشہیر شروع کر دیں۔ کراچی کی برنس روڈ پر ’سیلکٹیڈ‘ حلیم کی دوکان کھل جائے۔ سبزی اور پھل فروش مارکیٹ میں ’سلیکٹیڈ‘ سبزی اور پھل کی فروخت کا آغاز کر دیں۔ حجام پنکھ سٹائل رکھنے والے والے نوجوانوں کے سروں پر باقی ماندہ بالوں کی مدد سے ’سلیکٹڈ‘ تحریر کر دیں۔ دودھ والے بغیر پانی ملے دودھ کا نام خاص گاہکوں کے لیے’سلیکٹڈ‘ دودھ رکھ دیں۔ کوئٹہ میں ’سلیکٹڈ‘ سجی کی دوکانیں کھل جائیں۔ اسی طرح پشاور کی نمک منڈی میں المعروف اصلی چرسی تکہ کی قریباً دو سو دوکانوں میں سے کوئی ایک "سلیکٹڈ‘ چرسی " تکہ کا بورڈ لگا دے۔
اپنے ہاں کا تو چلن ہی یہی ہے جو جس چیز سے چڑتا ہے سب اسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اب سپیکر چاہے کچھ بھی کر لیں ’سلیکٹڈ‘ کا لفظ وزیر اعظم کے عہدے کا لاحقہ بن چکا ہے۔
عمران خان چاہے کتنی بھی جان چھڑانا چاہیں اس لفظ سےمفر ممکن نہیں۔اب چاہے اسمبلی میں سپیکر صاحب "سلیکٹڈ" کے لفظ کو اسمبلی کی کارروائی سے ہزار بار "حذف " کروا دیں عوام میں یہی لفظ ہی مشہور ہوگا۔
سوشل میڈیا پر باربار وہی وڈیوپوسٹ کی جائی گی جس میں "سلیکٹڈ" کہلائے جانے کے بعد عمران خان نے بے دھیانی میں تالیاں بھی پیٹی تھیں اور طنز کی کاٹ سمجھے بغیر پی ٹی آئی والوں نے بہت داد و تحسین کے ڈونگرے بھی بجائے تھے۔ اب سپیکر قومی اسمبلی کی نوازش کے سبب یہی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے گی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ہر پروگرام میں بھی یہی وڈیو دکھائی جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ’سلیکٹڈ‘ لفظ سے اتنا اختلاف کیوں ہے ؟ عمران خان اپنے مخالفین کو اس سے زیادہ متعفن القابات سے نوازتے رہیں۔ مخالفین نے بھی جواب آں غزل کے طور پر کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کے جہادی ہر لمحہ گالم گلوچ سے لیس بیٹھے رہتے ہیں انکی دشنام کی ڈکشنری بہت وسیع اور زرخیز ہے۔ اب تو یہ گالم گلوچ الیکٹرانک میڈیا کا بھی حصہ بن چکی۔
سیاسی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں اس سے کہیں بے ہودہ الفاظ استعال ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے القابات سے سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کو پکارا ہے کہ ان الفاظ کے مقابلے میں تو "سلیکٹڈ" تو ایک نہائت ہی پاکیزہ اور بے ضرر سے لفظ دکھائی دیتا ہے۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہو گا کہ ’سلیکٹڈ‘ کوئی کوثر و تسنیم سے دھلا ہوا لفظ ہے مگر بظاہر اس میں کوئی دشنام کا پہلو نظر نہیں آتا۔
ہمیں یہ سوچناہے کہ کیا ’سلیکٹڈ‘ عمران خان کی چھیڑ ہے یا ان کے لیے یہ بات تازیانہ ہے جنہوں نے "سلیکٹ" کیا ہے۔ اس لفظ سے عمران خان چڑتے ہیں یا وہ جن کے ذمے عمران خان کی تمام تر پرفارمنس لگ رہی ہے۔
اس لفظ سے خان صاحب خائف ہوتے ہیں یا پھروہ جنہیں عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس ابتر معاشی کارکردگی کا الزام دیا جا رہا ہے۔ اس لقب سے وزیر اعظم کا مذاق اڑتا ہے یا ان کا جن کے ذمے یہ گورننس لگ رہی ہے یا وہ جن کے شانوں پر عمران خان کو سہارا دینے کا الزام ہے۔
تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ کہ اگر کوئی آپ کی کوئی چھیڑ بنانے کی کوشش کرے تو نہائت تحمل اور بردباری کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں۔ اگر مقابلے کی سکت نہیں ہے تو چپ رہیں۔ کیونکہ اگر آپ ہمارے ہاں لوگوں کو کسی بھی کام سے منع کریں گے تو اس کے نتیجہ ہمیشہ الٹا ہی نکلے گا۔ اس قوم کے مزاج کو سمجھنے کے لیے بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ فرض کریں کہ آپ کسی کالم کا عنوان رکھ دیں کہ ’اس کالم کو پڑھنا منع ہے‘ پھر دیکھیے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ بس اتنی سی بات سمجھانی تھی۔