پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہو بلکہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو منشیات کے حوالے سے الزامات کا سامنا رہا اور سزائیں بھی ہوئیں۔
پیر کو انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثنا اللہ کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا اور ان کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئین برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔
اس سے پہلے بھی پاکستان میں انسداد منشیات کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے نے ہائی پروفائل کیسز بنائے لیکن اکثر مقدمات میں یا تو ملزمان پر الزامات ثابت نہیں ہو سکے یا وہ اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں۔
سنہ 1995 میں انسداد منشیات فورس نے پیپلز پارٹی کے رہنما منور حسن منج کی گاڑی سے 35 کلو گرام ہیروئین اور 30 کلو گرام چرس برآمد کی۔ بھاری مقدار کی منشیات برآمد ہونے پر لاہور سے منور حسن منج کے ڈارئیور اور سکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا گیا، انسداد منشیات فورس کی تفتیش کے دوران ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈ نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ برآمد ہونے والی منشیات کا تعلق منور حسن منج سے ہے۔
منور حسن منج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
سنہ 2001 میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے منور حسن منج اور دیگر دو ملزمان کو سزائے موت سنا دی۔ لاہور ہائی کورٹ نے 2003 میں منور حسن منج کی سزائے موت کو ختم کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کے ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انسداد منشیات فورس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں 2008 میں عدالت نے انسداد منشیات فورس کی اپیل خارج کر دی۔
انسداد منشیات فورس نے سابق صدر آصف علی زرداری کو 1998 میں منشیات کی سمگلنگ کے کیس میں گرفتار کیا۔ سابق صدر پر بیرون ملک منشیات سمگل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔ آصف زرداری کے خلاف ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلا اور 10 سال بعد سابق صدر کو ان الزامات سے بری کر دیا گیا۔
سنہ 2011 میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ادویات تیار کرنے والی مختلف فارماسوٹیکل کمپنیوں کو کوٹے سے زائد ایفی ڈرین دینے کے معاملے پر از خود نوٹس لیا۔
اس کیس میں 2012 میں انسداد منشیات فورس نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی پر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کوٹے سے زائد ایفی ڈرین فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
ستمبر 2012 میں علی موسٰی گیلانی کو انسداد منشیات فورس کے اہلکاروں نے سپریم کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا، تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔
سنہ 2012 میں جب یوسف رضا گیلانی کو اعلیٰ عدلیہ نے عہدہ رکھنے کے لیے نا اہل قرار دیا تو وزیراعظم کے عہدے کے لیے مخدوم شہاب الدین کا نام سامنے آیا۔ انسداد منشیات فورس نے ان ہی دنوں مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری حاصل کیے، جنہیں بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے راہداری ضمانت دے دی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے خلاف کوٹے سے زائد ایفی ڈرین حاصل کرنے کے الزام میں 2012 میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔ ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں راولپنڈی کی انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے 21 جولائی 2018 کو حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائی اور اینٹی نارکوٹکس فورس نے عدالت سے مسلم لیگ ن رہنما کو گرفتار کر لیا۔
اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی سزا کو معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔
انسداد منشیات کے مقدمات میں سزا کی شرح !!!
انسداد منشیات کے ہائی پروفائل مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سزا کی شرح انتہائی کم نظر آتی ہے۔ ترجمان انسداد منشیات فورس کا دعویٰ ہے کہ انسداد منشیات کے مقدمات میں سزا کی شرح 95 فیصد ہے۔
اس حوالے سے ’اردو نیوز‘ نے سینیئر قانون دان اکرام چوہدری سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کے حوالے سے ادارے کی تفتیش پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں سیاسی دباؤ اور اثر و رسوخ کے عمل دخل کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ملک کے معاشرتی نظام میں تحقیقاتی اداروں پر اثرو رسوخ کا عمل دخل ضرور رہتا ہے۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ جب تحقیقات میں شکوک و شبہات ہوں تو ملزمان کی بریت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور تفتیشی افسران کا برآمد شدہ مال کو ثابت کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔
اکرام چوہدری نے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کی حالیہ گرفتاری کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اب تک اس واقعے کے حوالے سے جتنی رپورٹس سامنے آئی ہیں وہ بھی کافی شکوک و شبہات کو جنم دی رہی ہیں اور تفتیشی افسران کو ایسے واقعات کو درست ثابت کرنے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے تمام مقدمات میں قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ملزمان بری ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے نظام کو بہتر بنانے کے لیے دیانتدار اور اہل تفتیشی افسران ہوں تو تمام تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔